اف کیا مزا ملا ستم روزگار میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اف کیا مزا ملا ستم روزگار میں
by اقبال سہیل

اف کیا مزا ملا ستم روزگار میں
کیا تم چھپے تھے پردۂ لیل و نہار میں

سو سجدے ایک لغزش مستانہ وار میں
اللہ کیا ادا ہے ترے بادہ خوار میں

روکوں تو موج غم کو دل بے قرار میں
ساغر چھلک نہ جائے کف رعشہ دار میں

کس سے ہو پھر امید کہ تار نظر مرا
خود جا کے مل گیا صف مژگان یار میں

خود حسن بے نیاز نہیں فیض عشق سے
خو میرے دل کی ہے نگہ بے قرار میں

وہ مست ناز حسن میں سرشار آرزو
وہ اختیار میں ہیں نہ میں اختیار میں

آشوب اضطراب میں کھٹکا جو ہے تو یہ
غم تیرا مل نہ جائے غم روزگار میں

باقی رہا نہ کوئی گلہ وقت واپسیں
کیا کہہ گئے وہ اک نگہ شرمسار میں

اک مشق اضطراب کا رکھا ہے نام عشق
اف بیکسی کہ وہ بھی نہیں اختیار میں

بزم سخن میں آگ لگا دی سہیلؔ نے
کیا بجلیاں تھیں خامۂ جادو نگار میں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse