اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا
by ریاض خیرآبادی

اف رے ابھار اف رے زمانہ اٹھان کا
کل بام پر تھے آج ہے قصد آسمان کا

رونا لکھا نصیب میں ہے اپنی جان کا
شکوا نہ آپ کا نہ گلا آسمان کا

بازار میں بھی چلتے ہیں کوٹھوں کو دیکھتے
سودا خریدتے ہیں تو اونچی دکان کا

یہ بھی خدا کی شان ہم اب ایسے ہو گئے
سایا بھی بھاگتا ہے تمہارے مکان کا

کیوں غم نصیب دل کو برا کہہ رہے ہو تم
کیوں صبر لے رہے ہو کسی بے زبان کا

واعظ شراب خانے میں کھولے گا کیا زباں
ہم خوب جانتے ہیں وہ ٹرا ہے تھان کا

ہم جام مے کے بھی لب تر چوستے نہیں
چسکا پڑا ہوا ہے تمہاری زبان کا

میں دل کی واردات تو کہنے کو کہہ چلوں
کس کو یقین آئے گا میرے بیان کا

یہ تو کہا تجھے ہو لہو تھوکنا نصیب
تم نے کبھی دیا کوئی ٹکڑا بھی پان کا

میں جاؤں یا نہ جاؤں انہیں لے کے بام پر
بدلا ہوا ہے رنگ بہت آسمان کا

افسانہ تم نے قیس کا شاید سنا نہیں
ٹکڑا ہے ایک وہ بھی مری داستان کا

اب کوئی سینہ چیر کے رکھ لے کہ دل بنائے
آویزہ گر پڑا ہے کوئی ان کے کان کا

آیا جو غیر لطف بہت دیر تک رہا
بدلا تھا میں نے بھیس ترے پاسبان کا

دنیا کی پڑ رہی ہیں نگاہیں ریاضؔ پر
کس وضع کا جوان ہے کس آن بان کا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse