اف انتہائے شوق میں اب کیا کرے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اف انتہائے شوق میں اب کیا کرے کوئی
by بیخود موہانی

اف انتہائے شوق میں اب کیا کرے کوئی
کہتے ہیں پہلے اپنی تمنا کرے کوئی

بیداد حسن یہ ہے تو پھر کیا کرے کوئی
رسوائیوں کے بعد بھی پردہ کرے کوئی

تم بھی کہو تو دل کو بتا دیں اب اس کا حال
اب وقت وہ نہیں ہے کہ پردہ کرے کوئی

کھل جائیں حسن و عشق کی نیرنگیوں کے راز
دیکھوں جو پھر کسی کی تمنا کرے کوئی

بد نامیاں نصیب میں ہیں سب کے ورنہ یاں
کوئی نہ کچھ مٹائے نہ پیدا کرے کوئی

کچھ ایسا حال ہے کسی بیمار عشق کا
وہ خود بھی کہہ رہے ہیں کہ اب کیا کرے کوئی

جھلکے گا اختیار میں محبوبیوں کا رنگ
میری نظر سے گل کا تماشا کرے کوئی

ذروں میں گونجتی ہے صدائے شکست دل
ہے شرط گوش دل کو مگر وا کرے کوئی

جب کچھ سمجھنے دیں نہ کسی کی تجلیاں
پھر کیوں مرے خیال کو رسوا کرے کوئی

ہے ذرہ ذرہ محشر آشوب شوق دیر
اب وقت آگیا ہے کہ پردا کرے کوئی

گم ہو چکی ہے قدرت ابداع آرزو
بیخودؔ حریم ناز تو ہے کیا کرے کوئی

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse