افشا ہوئے اسرار جنوں جامہ دری سے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
افشا ہوئے اسرار جنوں جامہ دری سے
by امداد علی بحر

افشا ہوئے اسرار جنوں جامہ دری سے
چھاپے گئے اخبار مری بے خبری سے

دم ناک میں آیا ہے اب اس نوحہ گری سے
دل پک گیا اے آہ تری بے اثری سے

کیا دن ہیں جو گل کھلتے ہیں شعلے ہیں دہکتے
لو چلتی ہے باغوں میں نسیم سحری سے

سونے کے نوالوں سے نہ کر پرورش روح
اتنی بھی محبت نہیں کرتے سفری سے

کب اہل دول سے ہوئی معبود پرستی
باطل ہے اگر سجدہ کریں تاج زری سے

ہر حال میں رہتی ہے خدا پر نظر اپنی
یہ مرتبہ حاصل ہے ہمیں بے ہنری سے

مغرور نہ ہو چاند سے رخسار پر اپنے
یہ قمقمہ روشن ہے چراغ سحری سے

تو وہ ہے شہ حسن اگر باج طلب ہو
لے حور سے گلدستہ طبق شاہ پری سے

منہ چڑھتے ہیں بد اصل تمیز ان کو نہیں ہے
دانتوں سے لڑی سلک گہر بد گہری سے

آنکھوں سے نکلوایے آنکھیں ہرنوں کی
چیتوں کی کمر توڑیئے نازک کمری سے

نوبت تو کہیں قتل گناہ گار کی آئی
نقارے بجاؤں گا میں تیروں کی سری سے

پشت لب شفاف سے جوبن ہے مسوں کا
سبزے نے نمو کی ہے عقیق شجری سے

پیری میں بھی ہم سے نہ ہوئی خانہ نشینی
باز آئے نہ بزموں سے نہ گزرے گزری سے

قد تیر سا تلوار تواضع سے ہوا ہے
وہ ہاتھ اٹھاتے نہیں بے داد گری سے

جب چاہو چلے آؤ یہ وعدہ نہیں اچھا
دل آنکھ چراتا ہے بہت منتظری سے

اب ضعف جنوں کوچۂ جاناں میں بہا دے
کب تک یہ ورم پاؤں پر آشفتہ سری سے

وہ چوٹ کلیجے میں لگی ہے کہ نہ پوچھو
تڑپوں گا تہ خاک بھی درد جگری سے

رونے کا نہ لے نام غم یار میں اے بحرؔ
الٹے نہ زمانے کا ورق لب کی تری سے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.