افسردگئ دل سے یہ رنگ ہے سخن میں
افسردگئ دل سے یہ رنگ ہے سخن میں
یعنی خزاں رسیدہ کچھ پھول ہیں چمن میں
غربت میں بھی رہے ہم یاروں کی انجمن میں
یاد وطن نے رکھا اکثر ہمیں وطن میں
کیا سانس کا بھروسا پھر آئے یا نہ آئے
کب تک جلے گی آخر یہ شمع انجمن میں
لاکھوں میں ایک نکلی وضع جنوں بھی اپنی
اب بھی رہے نہ دب کر ہم ان سے بانکپن میں
کیا جانے کیا وہاں سے لایا خوشی کا مژدہ
پھولا نہیں سماتا قاصد جو پیرہن میں
جو چاہتے ہیں راحت لکھیں وہ حال غربت
ہم ننگ جانتے ہیں خط بھیجنا وطن میں
شاید کچھ امن پاؤں ہاتھوں سے آسماں کے
خاک اس گلی کی لے کر ملنا مرے کفن میں
گو پیرزن ہے مخبر باعث تو ہے یہ آخر
آلودہ دست شیریں ہے خون کوہ کن میں
ہم میکشوں کو پی کر یہ انفعال آیا
رعشہ پڑا ہوا ہے ایک ایک عضو تن میں
خانہ خرابی اپنی یاد آئی جی بھر آیا
اجڑا ہوا جو دیکھا اک آشیاں چمن میں
واعظ تری زباں سے غیبت بتوں کی سن کر
مسجد سے اٹھ کے پہنچے ہم دیر برہمن میں
وہ دل میں اور دل ہے سو حسرتوں کا مسکن
خلوت میں انجمن ہے خلوت ہے انجمن میں
شاعر حفیظؔ تم سے کامل بہت ہیں لیکن
کہتے ہیں درد ایسا پیدا کہاں سخن میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |