افسردگئ دل سے یہ رنگ ہے سخن میں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
افسردگئ دل سے یہ رنگ ہے سخن میں
by حفیظ جونپوری

افسردگئ دل سے یہ رنگ ہے سخن میں
یعنی خزاں رسیدہ کچھ پھول ہیں چمن میں

غربت میں بھی رہے ہم یاروں کی انجمن میں
یاد وطن نے رکھا اکثر ہمیں وطن میں

کیا سانس کا بھروسا پھر آئے یا نہ آئے
کب تک جلے گی آخر یہ شمع انجمن میں

لاکھوں میں ایک نکلی وضع جنوں بھی اپنی
اب بھی رہے نہ دب کر ہم ان سے بانکپن میں

کیا جانے کیا وہاں سے لایا خوشی کا مژدہ
پھولا نہیں سماتا قاصد جو پیرہن میں

جو چاہتے ہیں راحت لکھیں وہ حال غربت
ہم ننگ جانتے ہیں خط بھیجنا وطن میں

شاید کچھ امن پاؤں ہاتھوں سے آسماں کے
خاک اس گلی کی لے کر ملنا مرے کفن میں

گو پیرزن ہے مخبر باعث تو ہے یہ آخر
آلودہ دست شیریں ہے خون کوہ کن میں

ہم میکشوں کو پی کر یہ انفعال آیا
رعشہ پڑا ہوا ہے ایک ایک عضو تن میں

خانہ خرابی اپنی یاد آئی جی بھر آیا
اجڑا ہوا جو دیکھا اک آشیاں چمن میں

واعظ تری زباں سے غیبت بتوں کی سن کر
مسجد سے اٹھ کے پہنچے ہم دیر برہمن میں

وہ دل میں اور دل ہے سو حسرتوں کا مسکن
خلوت میں انجمن ہے خلوت ہے انجمن میں

شاعر حفیظؔ تم سے کامل بہت ہیں لیکن
کہتے ہیں درد ایسا پیدا کہاں سخن میں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse