افسانہ نگاروں کی قسمیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
افسانہ نگاروں کی قسمیں
by مرزا عظیم بیگ چغتائی

ایک نوخیز افسانہ نگار کو سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ آج کل افسانہ نگاروں کی قسمیں کتنی ہیں تاکہ وہ یہ طے کرسکے کہ مجھے کیا کرنا چاہیے۔ میں نمبر وار گناتا ہوں۔

(۱) پہلی قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنے افسانوں کی خوبی کی وجہ سے شہرت حاصل کی۔ اپنے اوریجنل افسانوں کی وجہ سے پبلک سے روشناس ہوئے۔ اول تو انہوں نے دوسری چیزیں مثلاً فکاہیہ مقالے، تواریخی مضامین، ترجمے اور دوسرے دلچسپ ادبی اور معاشرتی مضامین ویسے بھی کم لکھے اور اگر لکھے بھی تو ان کی بدولت ان کو مقبولیت کا تمغہ نہیں ملا۔ اصل کارنامہ ان کا افسانہ نگاری رہا۔ ایک نہیں ان کے درجنوں افسانے ہیں اور ایک سے ایک بڑھ کر، ایسے کہ جب کبھی بھی کسی رسالے میں ان کا افسانہ شائع ہوا تو نہ صرف افسانوں میں ان کا افسانہ بہترین قرار دیا گیا بلکہ رسالے کے تمام مضامین نظم و نثر سے وہ سبقت لے گیا۔ عموماً رسالہ ہاتھ میں آتے ہی لوگ یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا افسانہ بھی ہے یا نہیں اور اگر ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہی پڑھتے ہیں۔ مثال کے طور پر منشی پریم چند۔

(۲) دوسری قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے انتہائی قابلیت اور خوبی سے غیر ملکی زبانوں کے مشہور افسانہ نویسوں کی کاوشوں سے اردو کو مالا مال کر دیا اور انہوں نے دنیائے ادب میں اسی سے شہرت حاصل کی۔ بدقسمتی سے آج کل کی اصطلاح میں یہ بھی افسانہ نویس کہلاتے ہیں۔

(۳) ایک اور قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جنہوں نے غیرملکی افسانوں کو ملکی جامہ نہایت ہی خوبی سے پہنایا اور اپنا کمال اسی مخصوص کام میں دکھایا۔ بدقسمتی سے یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

(۴) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے، جنہوں نے خود بھی اوریجنل افسانے لکھے، غیر ملکی افسانوں کو ملکی لباس بھی خوب پہنایا، دوسری زبانوں کے اچھے افسانوں کے ترجمے بھی خوب پیش کیے اور ان تمام کاموں کو مجموعی طور پر نہایت ہی خوبی سے انجام دیا اور جو کچھ بھی شہرت حاصل کی وہ ان تینوں کاموں سے حاصل کی مگر ان کا ہر کام علیحدہ کر کے دیکھا جائے تو ایسا نہیں جو ان کو مقبولیت کا وہ درجہ دے سکتا جو ان کو اب حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

(۵) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جنہوں نے محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت نام پیدا کیا۔ افسانے بھی لکھے اور اچھے لکھے مگر جو کچھ شہرت حاصل کی وہ محض اپنی مزاحیہ نگاری کی بدولت حاصل کی۔ بدقسمتی یاخوش قسمتی سے یہ بھی افسانہ نگار ہیں۔

(۶) ایک قسم افسانہ نگاروں کی وہ ہے جو در اصل شاعر ہیں اور انہوں نے شاعری ہی میں نام اور کمال پیدا کیا اور اپنا ثانی نہیں رکھتے لیکن باوجود اس کے اوریجنل افسانے بھی لکھتے ہیں۔ اچھے افسانے مگر ایسے نہیں کہ وہ افسانے ان کو وہ شہرت دیتے جو ان کی اپنی شاعری کی بدولت حاصل ہے۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

(۷) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو تخلص رکھتے ہیں اور ساتھ ہی دہلوی، جودھپوری وغیرہ کو تخلص کے ساتھ لازمی استعمال کرتے ہیں۔ محض اس نیت سے کہ اگر افسانے کے ساتھ نام شائع نہ ہوا تو لوگ بھول جائیں گے اور پبلک سے روشناس ہونے میں بڑی دیر لگے گی۔ یہ لوگ اپنے افسانوں سے نام پیدا نہیں کرتے بلکہ نام سے افسانہ پیدا کرتے ہیں۔ پڑھنے والوں کے دل پر بجائے افسانے کے نقش کے اپنے تخلص یا قلمی نام کا نقش کھود چکے ہیں۔ ہر قسم کے مضمون، ترجمے، ادب لطیف وغیرہ وغیرہ کے مریض ہیں۔ لوگوں کے ذہن نےاور حافظے نے کام نہ دیا۔ نتیجہ یہ پبلک کو سوائے ان کے تخلص کے اور کچھ یاد نہیں رہا کہ انہوں نے کب افسانے لکھے اور ان میں کیا لکھا تھا، مگر ہاں یہ قطعی فیصلہ کیا جا سکتا ہے کہ مشہور افسانہ نویس ہیں، جو کچھ بھی انہوں نے نام پیدا کیا وہ تخلص کے زور سے کیا اور فطرت انسانی کا صحیح مطالعہ کر کے اپنے نام کو مخفف کر کے اس سے پورا فائدہ اٹھایا۔ یہ بھی افسانہ نویس ہیں۔

(۸) ایک قسم افسانہ نویسوں کی وہ ہے جو آئے دن اس فکر میں رہتے ہیں کہ کسی طرح کسی رسالے کے آنریری ایڈیٹر یعنی مدیر اعزازی بن جائیں۔ اس سے یہ آسانی ہوتی ہے کہ اگر اپنا افسانہ کسی رسالہ کو چھپنے بھیجتے تو وہ اشتہارات کا نرخ پیش کرتا، اب مفت چھپ جائے گا۔ یہ لوگ اڈیٹر کو خط لکھتے ہیں تو عموماً کسی آنریری مجسٹریٹ کے خط سے مسودہ تیار کرتے ہیں جو کمشنر کو لکھا گیا ہو۔ یہ افسانہ نویس سرکار ادب کے آنریری مجسٹریٹ ہیں۔ مدیر اعزازی ہوتے ہی رسالہ ان کا ہو جاتا ہے، خود ایڈیٹر صاحب اس بات پر زور دیا کرتے ہیں کہ اپنے رسالے کا خیال رکھیے، ان کے ہر قسم کے مضامین رسالے میں شائع ہوتے ہیں۔ کسی کے نیچے کبھی ’ٹیگور‘ لکھنا بھول گئے، کبھی ’منقول‘ لکھنے سے رہ گیا۔

جس طرح آنریری مجسٹریٹ سرکار اور پبلک کی خاطر اپنا خرچ کرتا ہے، اسی طرح یہ بھی سرکار ادب اور رعایائے ادب کی خاطر اپنا بیش قیمت وقت اور ڈاک خرچہ صرف کرتے ہیں۔ کبھی کبھار آنکھ بچاکر ایک آدھ اوریجنل افسانہ بھی رسالے میں شائع کر دیتے ہیں۔ ایڈیٹر بھی چشم پوشی سے کام لیتے ہیں کہ چلو رہنے بھی دو۔ روز یہ بدعت تھوڑے ہی ہوگی۔ جس طرح آنریری مجسٹریٹ تساہلی کرے تو اس کے اختیارات ضبط ہو جاتے ہیں، اسی طرح یہ بھی اگر ٹھیک کام نہ کریں اور توسیع اشاعت میں کوشاں نہ رہیں تو ان کے اختیارات بھی ضبط ہو جاتے ہیں اور پھر یہ اپنی تقرری کے لیے دوسرے پر گنے کی تلاش میں لگ جاتے ہیں۔ آنریری مجسٹریٹ کا اور ان دونوں کا منتہائے نظر اور مقصد اولین خطاب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایک دن وہ آتا ہے کہ دونوں کو خطاب مل جاتا ہے۔ ایک کو بادشاہ کی سالگرہ پر دوسرے کو رسالے کی سالگرہ پر۔ اس کے بعد ایک کو خان بہادر کہتے ہیں اور ایک کو افسانہ نویس! چنانچہ مدیران اعزازی بھی افسانہ نویس ہیں۔

قصہ مختصر آج کل ہر مضمون نگار، نامہ نگار، فکاہیہ نگار، مزاحیہ نگار، شاعر، مترجم، وغیرہ وغیرہ افسانہ نگار یا افسانہ نویس کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ مجھے اس سے کچھ بحث نہیں کہ ایسا کیوں کیا جاتا ہے یا یہ کہ کارروائی کہاں تک صحیح اور درست ہے۔ مجھے تو ایک مبتدی کی توجہ صرف اس بات کی طرف مبذول کرنا ہے کہ وہ محض افسانہ نویسی کے نام کے پیچھے نہ دوڑے، ورنہ کوشش رائیگاں جائے گی۔ اس کو یہ کوشش کبھی نہ کرنا چاہیے کہ کسی نہ کسی طرح لفظ ’’افسانہ نویس‘‘ کا اس پر اطلاق ہوجانا ہی کافی ہے۔ خوب اچھی طرح ایک مبتدی کو سمجھ لینا چاہیے کہ ان آٹھ طرح کے افسانہ نویسوں میں سے کوئی بھی صحیح معنی میں افسانہ نویس نہیں۔ سوائے قسم اول کے اور مبتدی کو طے کرلینا چاہیے کہ اس کو سوائے پہلی قسم کے اور کسی طرح کا افسانہ نگار بننا کسی طرح بھی منظور نہیں۔

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse