افسانہ مرے دل کا دل آزار سے کہہ دو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
افسانہ مرے دل کا دل آزار سے کہہ دو  (1866) 
by شاہ آثم

افسانہ مرے دل کا دل آزار سے کہہ دو
بلبل کے ذرا درد کو گلزار سے کہہ دو

سودائے محبت نے کیا ہے مجھے مجنوں
جا سلسلۂ گیسوئے دلدار سے کہہ دو

مجھ تشنۂ دیدار کی ہے ہونٹوں پہ اب جان
للہ یہ چاہ زقن یار سے کہہ دو

گردن پہ مری سر یہ بہت بار گراں ہے
تیغ دو دم ابروئے خم دار سے کہہ دو

اس چشم سے کہہ دو مری رنجوری کی حالت
پیغام یہ بیمار کا بیمار سے کہہ دو

ہوں بندۂ الفت نہیں مذہب کی ہے خواہش
یہ حال مرا سبحہ و زنار سے کہہ دو

منصور صفت دل سے نکلتا ہے انا الحق
یہ حال مرا جلد سر دار سے کہہ دو

مژگان ستم گر نے کیا مجھ کو ہے بسمل
اعجاز مسیحائے لب یار سے کہہ دو

آثمؔ ہی ہوا کافر عشق شہ خادم
اس رمز کو ہر صاحب اسرار سے کہہ دو

This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.

Public domainPublic domainfalsefalse