اغیار چھوڑ مجھ سیں اگر یار ہووے گا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اغیار چھوڑ مجھ سیں اگر یار ہووے گا
by سراج اورنگ آبادی

اغیار چھوڑ مجھ سیں اگر یار ہووے گا
شاید کہ یار محرم اسرار ہووے گا

بوجھے گا قدر مجھ دل آشفتہ حال کی
پھاندے میں زلف کے جو گرفتار ہووے گا

بے فکر میں نہیں کہ صنم مست خواب ہے
کیا کیا بلا کرے گا جو بیدار ہووے گا

پنہاں رکھا ہوں درد کوں لوہو کی گھونٹ پی
کہتا نہیں کسی سیں کہ اظہار ہووے گا

بزم جنوں میں ساغر وحشت پیا جو کوئی
غفلت سیں عقل و ہوش کی ہشیار ہووے گا

تیری بھنووں کی تیغ کے پانی کوں دیکھ دل
اٹکا ہے اس سبب کہ ندی پار ہووے گا

رنگیں نہ کر توں دل کا محل نقش عیش سیں
غم کے تبر سیں مار کہ مسمار ہووے گا

برجا ہے یار مجھ پہ اگر مہربان ہے
بلبل پہ گل بغیر کسے پیار ہووے گا

جاتا نہیں ہے یار کی شمشیر کا خیال
معلوم یوں ہوا کہ گلے ہار ہووے گا

انکار مجھ کوں نیں ہے تری بندگی ستی
یاں کیا ہے بلکہ حشر میں اقرار ہووے گا

مجھ پاس پھر کر آوے اگر وو کتاب رو
مکتب میں دل کے درس کا تکرار ہووے گا

صحن چمن میں دیکھ تیرے قد کی راستی
ہر سرد تجھ سلام کوں خم دار ہووے گا

اس چشم نیم خواب کی دیکھے اگر بہار
نرگس چمن میں تختۂ دیوار ہووے گا

اس زلف عنبریں سیں جو یک تار جھڑ پڑے
ہر خوب رو کوں طرۂ دستار ہووے گا

اے جان میرے پاس سیں یک دم جدا نہ ہو
جینا ترے فراق میں دشوار ہووے گا

رکھتا ہے گرچہ آئنہ فولاد کا جگر
تیر نگہ کے سامنے لاچار ہووے گا

مت ہو شب فراق میں بے تاب اے سراجؔ
امید ہے کہ صبح کوں دیدار ہووے گا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse