Jump to content

اعجاز عشق

From Wikisource
اعجاز عشق
by میر تقی میر
314936اعجاز عشقمیر تقی میر

ثناے جہاں آفریں ہے محال
زباں اس میں جنبش کرے کیا مجال
کمالات اس کے ہیں سب پر عیاں
کرے کوئی حمد اس کی سو کیا بیاں
کہوں کیا میں اس کی صفات کمال
کہ ہے عقل کل یاں پریشاں خیال
خرد کنہ میں اس کی حیران ہے
گماں یاں پریشاں پشیمان ہے
زمین و فلک سب ہیں اس کے حضور
مہ و خور ہیں اس سے ہی لبریز نور
یہ صنعت گری اس ہی صانع سے آئے
کف خاک کو آدمی کر دکھائے
نہ آوے کسی کے جو ادراک میں
سو رکھ جائے وہ اس کف خاک میں
بری ہے گا تمثیل و تشبیہ سے
منزہ ہے وہ بلکہ تنزیہ سے
وہی حاصل مزرع آسماں
کیے ان نے دانے میں خرمن نہاں
سفید و سیہ کو نہیں اس کی بار
ورے ہے زمانے کی لیل و نہار

در توحید انشا طراز حسینے کہ فقرۂ یکتائی او بہ عالم دویدہ

سوا اس کے نقصاں ہے گر دیکھیے
کمال اس کے ہی ہیں جدھر دیکھیے
سر رشتہ ہے خلق کا اس کے ہاتھ
وہ شب باز ان پتلیوں کے ہے ساتھ
سبھوں میں نمود اس کی ہی شان ہے
یہ قالب ہیں سارے وہی جان ہے
گل و غنچہ و رنگ و بو و بہار
یہ سب رنگ اللہ ہی کے ہیں یار
اگرچہ ہیں یاں سب کی طرحیں جدا
یہ سب طرحیں ہیں ایک نام خدا
سما ارض و خورشید یا ماہ ہے
جدھر دیکھو اللہ ہی اللہ ہے
نظر کرکے ٹک دیکھ ہر جا ہے وہ
نہان و عیاں سب میں پیدا ہے وہ
بہرصورت آئینہ ہے گا جہاں
یہ سب عکس اس کے ہی پڑتے ہیں یاں
ملک جن و حیواں جماد و نبات
جو اس بن ہیں تو حیف ہے کائنات
وجود و عدم اس سے دونوں ہیں شاد
وہی ہے گا مبدا وہی ہے معاد
مجھے ساقی دے کوئی جام عقیق
ولیکن لبالب ہو اس میں رحیق
رکھے آپ میں جس کی آمد مجھے
کہ درپیش ہے نعت احمدؐ مجھے
در نعت سید المرسلین
ثنا جان پاک محمدؐ کے تیں
درود و تحیات احمدؐ کے تیں
رسول خدا و سر انبیا
زہے حشمت و جاہ صل علےٰ
دیا مجلس کبریا کا ہے وہ
شرف دودمان قضا کا ہے وہ
سب اس صفحے میں ہیں ظہور خدا
پر اس سے عبارت ہے نور خدا
جہاں وہ ہے واں جبرئیل امیں
اڑے حشر تک تو پہنچتا نہیں
کروں اس کی قربت کا کیا میں بیاں
کہ تھا قاب قوسین ادنیٰ مکاں
مرا زیر پا اس کے فرق نیاز
کیا جس کی خلقت پہ صانع نے ناز
بہ صورت اگر عبد مشہود ہے
حقیقت کو پہنچو تو معبود ہے
نہیں پاشکستوں کا اب دست گیر
محمدؐ بن اور آل بن اس کے میرؔ
گنہگار ہوں چشم لیک اس سے ہے
توقع شفاعت کی ایک اس سے ہے
درود آل پر اس کے ہر صبح و شام
وہ ہے شافع حشر و خیر انام
پلا ساقیا بادۂ لعل گوں
کہ ہوجائیں سرخ آنکھیں مانند خوں
ہے اب حرف مستانہ کا دل میں جوش
کر آویزۂ گوش گر کچھ ہے ہوش

مناجات بہ طور عاشقان زار در بلاے جدائی گرفتار

مرا زخم یارب نمایاں رہے
پس از مرگ صد سال خنداں رہے
رہے دشمنی جیب سے چاک کو
صبا دوست رکھے مری خاک کو
مژہ اشک خونیں سے سازش کرے
غم دل بھی مجھ پر نوازش کرے
جگر سے طپیدن موافق رہے
مرا درد دل مجھ پہ عاشق رہے
جو نالہ ہو شب گیر کا روشناس
وہ آٹھوں پہر ہی رہے میرے پاس
مژہ گرم افسوس و نم ناک ہو
کہ سیلاب آتش پہ خاشاک ہو
کرے نیزہ بازی یہ آہ سحر
کہ خورشید کی پھوٹ جاوے سپر
خموشی سے مجھ کو رہے گفتگو
اڑے پر لگاکر مرا رنگ رو
نہ مرہم سے افسردہ ہو داغ دل
شگفتہ رہے یہ گل باغ دل
سدا چشم حیرت سے نسبت رہے
مجھے دیکھ رہنے کی فرصت رہے
اگر ضعف ٹک کسب طاقت کرے
مری ناتوانی قیامت کرے
مری بیکسی ناز بردار ہو
مروں میں تو مرنے کو تیار ہو
بیاباں میں آشفتہ حالی کروں
کہیں تو دل پر کو خالی کروں
کریں دونوں عالم ملامت مجھے
ڈبو دیوے اشک ندامت مجھے
مرا ہاتھ ہو چاک کا دستیار
کہ تا جیب و دامن ہو قرب و جوار
جنوں میرے سر پر سلامت رہے
بیاباں میں مجھ سے قیامت رہے
بہکنے سے مجھ کو نہ ہو وارہی
بھلا دے خضر کو مری گمرہی
جو ہو گرم رہ پاے پرآبلہ
تو ہوجائے سرد آتش قافلہ
ارے ساقی اے غیرت آفتاب
کہاں تک ہمیں خون دل کی شراب
کبھو ساغر بادہ کا دید ہو
محرم ہمارا کبھو عید ہو

در تعریف عشق خانماں آباد و آزادگان برنا نہاد

زہے عشق نیرنگ سازی تری
کہ ہے کھیلنا جی پہ بازی تری
تجھی سے ہے آب رخ زرد زرد
تجھی سے مرے دل میں اٹھتا ہے درد
تجھے ربط کفار و دیں دار سے
تجھے رشتہ تسبیح و زنار سے
تجھی سے ہے بلبل کو نوحہ گری
تجھی پر ہے قمری بھی خاکستری
ترا جذب دریا کو بہنے نہ دے
ترا شور صحرا کو رہنے نہ دے
تجھی سے دل شاد غم ناک ہے
تجھی سے مرا سینہ صد چاک ہے
تمنا کو تونے کیا ہے شہید
تجھی سے نہ برآئی میری امید
تجھی سے ہے مجنون صحرانورد
تجھی سے ہے فرہاد کوہوں پہ مرد
تجھی سے گلوبند ہے خستگی
تجھی سے ہے وابستہ دل بستگی
تجھی سے دل عاشقاں ہے کباب
تجھی سے ہے پروانہ آتش کا باب
ترا کام دینا ہے بدنامیاں
تری ریجھ دیکھے ہے ناکامیاں
تجھی سے سراسیمہ ہیں یار لوگ
تری تیغ سے قیمہ ہیں یار لوگ
تجھی میں ہیں یہ کارپردازیاں
تجھی پر ہیں موقوف جانبازیاں
مجھے اس کے چھپنے کا سودا رہا
ولیکن ترا راز رسوا رہا
لہو اپنا عاشق پیا ہی کیے
ترے جرم پر جی دیا ہی کیے
ترا ہی نمک خوار ہے زخم دل
کہ مرہم سے بیزار ہے زخم دل
تجھے اک ہے مژگاں سے یہ ربط اشک
کہ مشکل ہوا ہے مجھے ضبط اشک
کدھر ہے تو اے ساقی لالہ فام
نہ لغزش ہے تجھ بن نہ بہکا کلام
کہاں تک کوئی خون دل کو پیے
کوئی کیونکے اس رنگ ظالم جیے

زبانی درویش جگر ریش کہ ایں بلا در سفر آمدش پیش

کسو معتبر سے روایت ہے ایک
کہ درویش سے یہ حکایت ہے ایک
کہ اک ملک میں میں قضارا گیا
جواں ایک واں مفت مارا گیا
وہ جس طور مارا گیا اب کہوں
تعجب میں اس کے کہاں تک رہوں
سن اب آ جو کچھ اس کے جی پر ہوا
مصیبت زدہ بن اجل ہی موا
اٹھا سیر کرنے کو میں ایک روز
پشیمانی اس کی ہے مجھ کو ہنوز
نظر جا پڑی جو مری ایک سو
سر راہ بیٹھا تھا اک خوب رو
فقیروں کی سی جھولی ایک اس کے پاس
گلے میں نہایت مکلف لباس
سر اوپر تھا ہنگامہ اک اس کے جمع
پتنگے اکٹھے ہوں جوں گرد شمع
لقب اس کا دیوانۂ عشق تھا
کہ شہرت میں افسانۂ عشق تھا
جوانی کے گلشن کا وہ تازہ گل
کرے جس کی خاک قدم غازہ گل
اسی کی سی مقدور تک سب کہیں
سدا اس کا منھ دیکھتے ہی رہیں
وہ اک دودماں کا تھا روشن چراغ
جلاتے تھے سارے اسی پر دماغ
ولے اس کے دل میں اک آتش نہاں
کہ دیجے جلا اس سے سارا جہاں
سب آرام چاہیں اسے اضطرار
سراپا تلک ایک دل بے قرار
نہ کچھ ہوش گھر جانے کا اس کو تھا
تشتت نہ مرجانے کا اس کو تھا
نہ طاقت تھی تن میں نہ کچھ جی میں تاب
نہ دل پاس نے صبر و آرام و خواب
سر راہ دل قیمہ قیمہ لیے
یہ کہتا تھا مرجایئے بس جیے
سن اس نوگل عشق کی بے کلی
رہا کرتی ماتم سرا وہ گلی
دل و صبر و ہوش و توان و حواس
رہیں اس کی وحشت سے سارے اداس
نہ ناموس کا ننگ نے نام کا
بلا دوست دشمن تھا آرام کا
شب و روز فریاد کرنا اسے
کئی بار اک دم میں مرنا اسے
تماشے کا دیوانہ پیدا ہوا
زمانے کو چندے تماشا ہوا
جو دم لے طپش تو شتابی کرے
تسلی دل کی خرابی کرے
کرے طرح داغوں سے وہ باغ کو
روائی اسی سے زر داغ کو
دل غم زدہ سے محبت اسے
قیامت خوشی سے عداوت اسے
وہ بے تابیوں سے بہت کم فراغ
کہاں صبر کرنے کا اس کو دماغ
اٹھے اس کے جی سے فغاں کے شرر
رہے برچھیاں سہتی آہ سحر
وہ ہرچند ہر صبح کو ہو ملول
ولیکن دعا اس کی کیا ہو قبول
نہ آنسو کو اس کے تھی اس پر نظر
نہ آہ سحر میں تھا اس کے اثر
کہے رنگ رو کیوں مرا زرد ہے
رکھے ہاتھ دل پر کہ کچھ درد ہے
کرے دیدۂ اشک افشاں پہ ناز
بدے لخت دل رونے کی کچھ نیاز
وہ کاندھے پہ نعش تمنا کے تیں
کرے تعزیت خانہ دنیا کے تیں
سنے نہ کسو کی نہ اپنی کہے
بیاں اس کا کچھ گو مگو ہی رہے
لے آ ساقی گر بادۂ شوق ہے
سیہ مستی کا ہم کو بھی ذوق ہے
کھلا چاہتا ہے گل راز عشق
کہ پردے میں کب تک بجے ساز عشق

رفتن درویش پیش آں جوان رفتہ از خویش و دل دہی کردن او بیش از بیش

یہ قصہ جہاں میں فسانہ ہوا
مجھے بھی سخن کا بہانہ ہوا
ولے گاہ وہ شمع مجلس فروز
کئی بیتیں پڑھتا تھا وہ سینہ سوز
کہ جن کا یہ مضمون تھا دوستاں
جلے ہے گی تقریر کرتے زباں
بڑی آتش عشق سرکش ہے یاں
جگر کیوں نہ جل جائے آتش ہے یاں
نظر آ کہیں جارہا ہے یہ جی
کہ آنکھوں میں اب آرہا ہے یہ جی
زن و مرد کی ہوں زباں سے بتنگ
ہوا ہوں میں سارے قبیلے کا ننگ
سدا خون دل میں طپیدہ ہوں میں
کہ آہ بہ لب نارسیدہ ہوں میں
تری دوری میں پہنچی ہے اے حبیب
وداع دم واپسیں بھی قریب
جگر تو ہو پانی بہا غم کے بیچ
یہ دم بھی ہوا ہے کوئی دم کے بیچ
سمجھنا یہ بھی اے مرے سر پہ خاک
کس امید پر میں ہوا ہوں ہلاک
تو جب سے در اوپر نظر آگئی
رہیں آفتیں میرے سر پر نئی
نہ نامہ نہ پیغام نے رسم و راہ
یونہی ہوتی جاتی ہے حالت تباہ
دل و دیدہ سب مدعی ہوگئے
تماشائی مجھ پر بہت رو گئے
کئی بار جاں لب پر آ پھر گئی
کہاں ہے تو اے گل ہوا پھر گئی
یہ حیران ہوں صبر آتا نہیں
تصور ترا جی سے جاتا نہیں
خراش جگر سے ہے چھاتی میں درد
کہ جس سے ہوا جائے ہے رنگ زرد
رہا کرتی ہے داد بیداد یاں
دل شب سے گذرے ہے فریاد یاں
سر رہ تک آ دیکھ یہ خستہ حال
کہ ہے نقش پا کی طرح پائمال
ترے دور غم میں تو جوں کیمیا
سنا ہی گیا نام مہر و وفا
نہ آنا نظر ہی ادا ہے ولیک
نہ اتنا کہ جاتا رہے جی سے ایک
ترے غم میں اے آفت روزگار
ہزاروں بلائیں ہیں یاں روبکار
کہاں ہے تو محمل نشین حیا
سر راہ نالاں ہوں مثل درا
کہہ اس طرز سے حال دل کا تمام
خموشی کو پھر اس نے فرمایا کام
کہاں ہے تو اے ساقی گل عذار
کہ دے مجھ کو جام مئے خوش گوار
کہوں قصۂ عشق بے کیف و کم
قلم بے خودانہ کرے کچھ رقم
مجھے آہ اک اس کے دل کی لگی
کہے تو کہ سینے میں برچھی لگی
گیا زہرۂ تاب دل آب ہو
کہا آگے جاکر میں بے تاب ہو
کہ اے نازپرورد مہر و وفا
کوئی اپنے جی پر کرے ہے جفا
مثل ہے کہ جی ہے تو ہے گا جہاں
وگرنہ موئے پر ہے کیا میری جاں
تلف یوں نہیں جان کرتا کوئی
نہیں اس سلیقے سے مرتا کوئی
تہ دل ہو معلوم تا بول ٹک
تو مژگان خوں بستہ کو کھول ٹک
سخن حسرت آلود کہنے پہ آ
کچھ اک دل کی باتیں زباں پر بھی لا
وگرنہ تو رک رک کے مرجائے گا
یہ ہے عشق کام اپنا کر جائے گا
تو ہے صرصر غم سے آتش بجاں
دیا سا نہ بجھ جائیو اے جواں
تو اے شمع خامش زباں ٹک ہلا
کہ کس مجلس افروز سے تو جلا
تو کس آتش تند پر ہے سپند
ترا دود دل یہ ہوا ہے بلند
جلاتی ہے آتش تری میرے تیں
کیا داغ کس شعلے نے تیرے تیں
گھٹا پاتے ہیں تجھ کو ہر صبح و شام
نہ کاہیدہ ہو تو ہے ماہ تمام
ترا درد پنہاں ہے گو آشکار
یہ مجھ سے بیاں کر کہ ہوں رازدار
کہیں دل لگا ہو تو یہ مجھ سے کہہ
کہوں اس سے جاکر غمیں تو نہ رہ
جہاں کو تو بھیجے وہاں جاؤں میں
کہے کام جو تو بجا لاؤں میں
جو حور بہشتی بھی ہو تیری یار
کروں میں ملک کی طرح واں گذار
خدا جانے کیا جی میں بات آگئی
کہ یہ میری دل جوئی ہی بھا گئی
یہ سن کر جوان زخود رفتہ نے
جگر سوختہ اور دل تفتہ نے
کیا سوز دل کو لبوں پر نمود
زباں تاب کھانے لگی جیسے دود
سخن ہونے لاگے نمودار کچھ
لگا کرنے پیچیدہ گفتار کچھ
کہ جس سے یہ معنی ہوئے مستفاد
کہ اے غم گسار دل نامراد
جو دل جوئی میری ہے مدنظر
تو یاں اک محلہ ہے ٹک قصد کر
نہیں اس کو درکار کچھ جستجو
سرا ایک ترسا کی ہے قبلہ رو
زبانی مری در پہ یہ جا کے کہہ
کہ احوال سے میرے غافل نہ رہ
ترے واسطے خوب رسوا ہوا
مرے سر پہ ہنگامہ برپا ہوا
تسلی شکیبائی مطلق نہیں
پر اب تاب تنہائی مطلق نہیں
رہی جب تلک تن میں تاب و تواں
اٹھایا تحمل کا بار گراں
شتابی سے دے ساقیا جام عشق
کہ لکھنے لگا ہوں میں پیغام عشق
ہوا آخر اب دل کا سب خون ناب
پیوں کب تلک اک گلابی شراب
کہے سے جواں کے غرض قصد کر
گیا بندہ ترسا کے دروازے پر
سن آواز دستک کی اک رشک حور
مہ چاردہ سی نپٹ باشعور
دوچار آکے مجھ سے ہوئی ایک بار
گیا جس کے دیکھے سے صبر و قرار
ہوئی دیکھے سے جب حقیقت عیاں
کہا میں کہ تاجر پسر تھا جہاں
بشر کیا ہے دیکھ ایسی آفت کے تیں
فرشتہ بھی رو بیٹھے عصمت کے تیں
کہا میں نے پیغام جو آیا بن
پہ خوبی سے اس کی کروں کیا سخن
مژہ بخت عاشق کی برگشتگی
نگہ ایک عالم کی سرگشتگی
قد و قامت اس کا کروں کیا بیاں
قیامت کا ٹکڑا ہوا تھا عیاں
وہ نازاں جدھر آتی تھی اچپلی
قیامت بھی آتی جلو میں چلی
میں سودائی اس زلف تاریک کا
ہر اک مو سبب رنج باریک کا
شکن اس کی کاکل کا دام بلا
ہر اک حلقۂ زلف کام بلا
بھووں کی کمانوں سے لگ زلف تار
الٹتے تھے اڑ اڑ کے جوں تیرمار
اگر ابرو اس کی جھمک جاتی تھی
مہ نو کی گردن ڈھلک جاتی تھی
ہلے اس کے ابرو جدھر کرکے ناز
کرے اس طرف ایک عالم نماز
کمان اس کے ابرو کی عاشق کمیں
خدنگ اس کی مژگاں کے سب دل نشیں
نہ آنکھوں کی مستی کی اس کو خبر
خرابی نہ عاشق کی مدنظر
نگہدار تھی سرخی چشم کی
طرفدار تھی اپنے ہی خشم کی
شہید اس کی چشمک کے دل خستگاں
نشانے نگاہوں کے دل بستگاں
مژہ موجب قتل جمع کثیر
غرض سب تھے یہ ایک ترکش کے تیر
چھپیں اس کے غمزے میں کتنی سناں
نمایاں ہوئی سب پہ مرگ جہاں
جبیں کھول دی اس پری زاد نے
کہ چیں مانی خوبان نوشاد نے
رواں اس شب افروز سے اشک شمع
یہیں سے ہے روشن کہ تھی رشک شمع
وہ مردوں کو زندہ دوبارہ کرے
مسیحا جہاں سے کنارہ کرے
پری منفعل رنگ رخسار سے
خجل کبک انداز رفتار سے
خضر تشنہ اس کے ہے دیدار کا
مسیحا شہید اس کے بیمار کا
سوا اس کی باتوں کے سب باتیں ہیں
جسے سن کے مردے بھی جی جاتے ہیں
غرض اور سب یونہی کہنے کو ہیں
مسیحا کے لب یونہی کہنے کو ہیں
لب سرخ اس کے وہ گل برگ تر
چھپیں جن میں دنداں کے سلک گہر
تبسم میں اپنے وہ برق بہار
دم حرف ہوتے گئے آبدار
دہن غنچۂ ناشگفتہ سے کم
سخن رہرو راہ تنگ عدم
تبسم ٹک اک گر وہ دلکش کرے
تو گلشن میں گل صد چمن غش کرے
نہ دیکھا کسی نے جو تن اس کا صاف
نظر گر نہ ٹھہرے تو کیجے معاف
کمر اس کی ممکن نہیں ہاتھ آئے
مگر صاحب دست غیب اس کو پائے
نہ رنگ صفا ہی فقط تن پہ تھا
کہ مینا کا خون اس کی گردن پہ تھا
کیا ان نے پامال فتنوں کا خوں
حنا اس کے ہاتھوں میں کتنوں کا خوں
ادا اس کی عاشق کے جی کی بلا
نہ میری تمھاری سبھی کی بلا
اگر جلوہ گر ہو وہ محشر خرام
تو معلوم ہے پھر جہاں کا قیام
خراماں خراماں جدھر آگئی
قیامت ہی گویا ادھر آگئی
اسے لغزش پا مئے ناز سے
وہ مست سر انداز انداز سے
نہ ہووے وہ دن جس میں ہووے نقاب
چلا جائے پردے ہی میں آفتاب
اسی بت کا ہر اک تئیں ذکر ہے
خدا کو خدائی کا اب فکر ہے
چڑھاوے اگر ہاتھ سے آستیں
تو پھر دست موسیٰ بھی کچھ ہے نہیں
ہوئیں طرح اس سے جفاکاریاں
نکالی ہیں ان نے دل آزاریاں
ترحم کو پاؤں تلے وہ ملے
ستم اس کے کوچے سے بچ کر چلے
جو آمد ہو اس کی نصیب چمن
کرے ترک گل عندلیب چمن
گلی اس کی فردوس کا تھی شرف
بہشت اک گنہگار سی اک طرف
زمیں اس کی یک دست گلزار تھی
نسیم چمن واں گرفتار تھی
گلی اس کی وہ قتل گاہ عجیب
شہادت وہاں خضر کو ہو نصیب
وہی جاے باش دل عاشقاں
اسی پر معاش دل عاشقاں
صبا گر اڑا دے تنک واں کی خاک
تو نکلے زمیں سے دل چاک چاک
کئی نعرہ کش واں کئی نعرہ زن
کئی خوں گرفتہ کئی بے کفن
کئی بے وطن واں سفر کر گئے
سسکتے ہیں کتنے کئی مر گئے
ہر اک جان ہر شخص ناکام کی
ہوادار اس کے لب بام کی
پھروں گرد ساقی نشے میں ترے
گلابی ہی منھ کو لگادے مرے
مجھے مست آب سیہ دے کے کر
چلوں جوں قلم پھر میں مطلب اپر
سنا وہ جگرسوز پیغام جب
کیے آشنا حرف سے لعل لب
پڑھی اک رباعی نہ کر اعتنا
کہ مضمون جس کا یہ موزوں ہوا
کہ ہجراں میں جو بے قراری کرے
سر راہ فریاد و زاری کرے
نہ سونے دے نالوں سے ہمسایہ کو
بھلی مرگ ایسے فرومایہ کو
محبت کی رہ میں یہ پہلا ہے کام
کہ سر سے گذر جائیے شاد کام
نہیں شرط الفت میں چین جبیں
اگر پیش آوے دم واپسیں
جو پھوٹا ہی پڑتا ہو جوں آبلہ
وہ ہے دم میں واماندۂ قافلہ
نہ جو ہوسکے ہجر کا پائمال
تو بہتر ہے ہونا ہی اس کا وصال
گیا میں جواب اس سے لے کر ادھر
سر رہ تھا پامال غم وہ جدھر
حقیقت بیاں کی سب اس جاے کی
جواں نے یہ سنتے ہی اک ہائے کی
گئی ساتھ اس ہائے کے اس کی جاں
گرا خاک پر ہوکے بے دم جواں
تکے تھا مگر رہ سفر کر گیا
کہ اک بات کی بات میں مر گیا
نہ دیر اس کو ہوتے ہوئے جی سے سیر
مجھے بات کے کہتے لاگی بھی دیر
مری بات میں خون بلبل ہوا
دیا سا وہ جلتا جو تھا گل ہوا
میں یہ واقعہ دیکھ گھبرا گیا
کہ یوں یہ گل تازہ مرجھا گیا
نہ سوجھا مجھے اور کچھ اس سوا
کہ کریے بیاں طرف ثانی سے جا
ملامت کروں اس کو میں یک جہاں
کہ اے بے حقیقت گئی اس کی جاں
ترے ناز بیجا کا تو کیا گیا
پر اک بے گنہ اس میں مارا گیا
رہی گھر میں خوبی پہ تجھ کو نظر
سر رہ گیا ایک جی سے گذر
ہے اب مشت خاک اس کی ذلت کا باب
ترے آستاں بن ہے مٹی خراب
یہ ٹھہرا میں اودھر روانہ ہوا
ادھر مرنا اس کا فسانہ ہوا
پلا ساقی ماہ وش ایک جام
گیا کاستن ہی میں ماہ تمام
کہاں ہے وہ خون کبوتر سی مے
کہ پی کر فغاں کیجیے مثل نے
غرض جوں توں کر قطع میں راہ کی
گیا تھی جہاں منزل اس ماہ کی
کی آواز دستک کہ بار دگر
ہوئی گھر میں القصہ میری خبر
در خانہ پر آئی اک پیر زن
لگی کرنے عشق جواں سے سخن
کہ کیوں دوسری بار آیا ہے تو
شگوفہ مگر اور لایا ہے تو
کوئی رہ گیا تھا پیام جواں
جو تو پھر شتابی سے آیا یہاں
بیاں کر جو کہنا ہو تجھ کو شتاب
کہ ہے منتظر غیرت آفتاب
کہا میں نے اے پیر زن کیا کہوں
عزادار اس نوجواں کا میں ہوں
پیام اس کا لایا تھا میں اس لیے
کہ وہ بے اجل مرتا ہے ٹک جیے
سو یاں سے گیا لے کر ایسا جواب
کہ جس سے نکلتا تھا ناز و عتاب
نہ تھی تاب حرف درشت اس کے تیں
کیا غم نے تھا نیم کشت اس کے تیں
نہ مشغول یوں ہی وہ زاری سے تھا
وہ بے تاب بے اختیاری سے تھا
نہ سمجھی یہ رشک پری اس کے تیں
دکھائی دی عشوہ گری اس کے تیں
چڑھا ان نے تیوری اک انداز سے
کہا بے مزہ ہو کے یوں ناز سے
کہ جس کو نہ ہو تاب لانے کی تاب
شتابی سے مرنا ہے اس کا صواب
ہوا سامنے اس کے میں حرف زن
یہ اس کی زباں سے کہا میں سخن
جواں سنتے ہی کرکے ایدھر نگاہ
سفر کر گیا جان سے بھر کر آہ
یہی ماجرا کہنے آیا ہوں یاں
خبر اس کے مرنے کی لایا ہوں یاں
کہہ اس سے کہ اے کشتۂ غم کی جاں
گیا آخرالامر جی سے جواں
یہ کہہ دس قدم واں سے میں تھا چلا
کہ اک شور کانوں میں میرے پڑا
گذرنے لگی دل سے آواز آہ
لگا ہونے آنکھوں میں عالم سیاہ
صدا ایک نوحے کی آنے لگی
کہ یعنی وہ دختر ٹھکانے لگی
محبت نے کام اپنا پورا کیا
کہ ان دونوں لعلوں کو چورا کیا
فقیر آن کر سخت نادم ہوا
کہ میرے سبب دونوں کا جی گیا
یہ بھی جاے گریہ ہے ساقی سنا
کہ بدلے گزک کے ہے یاں دل بھنا
تھوڑی دارو دے سایۂ تاک میں
بہ رنگ گل اب لوٹیے خاک میں

مقولۂ شاعر

عجب کی نہیں جا نہ کھا پیچ و تاب
یہ اے میرؔ ہے عشق خانہ خراب
سنا ہے کہ فرہاد پر کیا ہوا
پھر اس عشق نے شیریں سے کیا کیا
عزا کا ہے مجنوں کی نوحہ پڑا
سیہ خیمہ لیلیٰ کا بھی ہے کھڑا
گئی جان وامق کی کس رنگ سے
ہوا چاک عذرا کا سر سنگ سے
گئی آہ نل کی فلک سے ادھر
دمن ہے بگولہ زمیں کے اپر
بہت عشق کی آگ میں جل گئے
بہت اٹھتے جاتے ہیں شعلے نئے
گئی جل کے آخر پتنگوں کی جاں
چراغوں سے اک دود دل ہے کشاں
ہے بے تاب ذرہ اسی سے کباب
جلے ہے اسی آگ میں آفتاب
دل اس داغ سے مہ کا بھنتا ہی ہے
کتاں کا جگر چاک سنتا ہی ہے
سیہ رنگ اگتا ہے سرو سہی
وہی رنگ قمری ہے خاکستری
بھنور کے بھی جی پر پڑے گل کئی
کنول کی کھلی آنکھ پھر مند گئی
کوئی نالہ بلبل سے ہے یادگار
خزاں اس چمن میں ہے گل کی بہار
کہیں ساقی دے آب گل رنگ کو
کشادہ بھی کر اس دل تنگ کو
گلے لگ کے مینا کے ٹک رویئے
فسانہ بھی آخر ہے اب سویئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.