اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو
by مومن خان مومن

اعجاز جاں دہی ہے ہمارے کلام کو
زندہ کیا ہے ہم نے مسیحا کے نام کو

لکھو سلام غیر کے خط میں غلام کو
بندے کا بس سلام ہے ایسے سلام کو

اب شور ہے مثال جو دی اس خرام کو
یوں کون جانتا تھا قیامت کے نام کو

آتا ہے بہر قتل وہ دور اے ہجوم یاس
گھبرا نہ جاے دیکھ کہیں اژدحام کو

گو آپ نے جواب برا ہی دیا ولے
مجھ سے بیاں نہ کیجے عدو کے پیام کو

یاں وصل ہے تلافی ہجراں میں اے فلک
کیوں سوچتا ہے تازہ ستم انتقام کو

تیرے سمند ناز کی بے جا شرارتیں
کرتے ہیں آگ نالۂ اندیشہ کام کو

گریہ پہ میرے زندہ دلو ہنستے کیا ہو آہ
روتا ہوں اپنے میں دل جنت مقام کو

سہ سہ کے نادرست تری خو بگاڑ دی
ہم نے خراب آپ کیا اپنے کام کو

اس سے جلا کے غیر کو امید پختگی
لگ جائے آگ دل کے خیالات خام کو

بخت سپید آئینہ داری کرے تو میں
دکھلاؤں دل کے جور اس آئینہ فام کو

جب تو چلے جنازۂ عاشق کے ساتھ ساتھ
پھر کون وارثوں کے سنے اذن عام کو

شاید کہ دن پھرے ہیں کسی تیرہ روز کے
اب غیر اس گلی میں نہیں پھرتے شام کو

مدت سے نام سنتے تھے مومنؔ کا بارے آج
دیکھا بھی ہم نے اس شعرا کے امام کو

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse