اعجاز تصور

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اعجاز تصور
by تصدق حسین خالد

راہ دیکھی نہیں اور دور ہے منزل میری
کوئی ساقی نہیں میں ہوں مری تنہائی ہے
دیکھنی ہے مجھے حیرانی سے تاروں کی نگاہ
دور ان سے بھی کہیں دور مجھے جانا ہے
اس بلندی پہ اڑے جاتا ہے تو سن میرا
کہکشاں گرد سی دیتی ہے دکھائی مجھ کو
رفعت گوش سے سنتا ہوا مبہم سا شرار
میری منزل ہے کہا یہ کبھی سوچا ہی نہیں
اس کی فرصت ہی کسے دل میں مگر رہتا ہے
درد وہ درد کہ ہے جس سے کمنا بیتا
جانے کچھ راہ مرے ساتھ ہوا تھا لیکن
رہ گیا دور کہیں ہار کے ہمت اپنی
زہرہ کہنے لگی اے بزم فلک کے قاصد
زرد رو پہلی ہی منزل میں ہوا تو کیوں کر
جب کہ وہ خاکئی بے مایہ بڑھے جاتا ہے
پست ہر ایک بلندی کو کٹے جاتا ہے
بھڑکے اک آہ کہا چاند نے یوں زہرہ سے
اے نگار رخ زیبائے بہار افلاک
میں بھی حیران ہوں اس ہمت عالی پہ کہیں
حسن سلمیٰ کے تصور کا یہ اعجازؔ نہ ہو
یہ جواں حوصلگی پردہ در راز نہ ہو

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse