اعتراف (مجاز لکھنوی)
اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو
میں نے مانا کہ تم اک پیکر رعنائی ہو
چمن دہر میں روح چمن آرائی ہو
طلعت مہر ہو فردوس کی برنائی ہو
بنت مہتاب ہو گردوں سے اتر آئی ہو
مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے
خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے
حسن نے جب بھی عنایت کی نظر ڈالی ہے
میرے پیمان محبت نے سپر ڈالی ہے
ان دنوں مجھ پہ قیامت کا جنوں طاری تھا
سر پہ سرشارئ عشرت کا جنوں طاری تھا
ماہ پاروں سے محبت کا جنوں طاری تھا
شہریاروں سے رقابت کا جنوں طاری تھا
بستر مخمل و سنجاب تھی دنیا میری
ایک رنگین و حسیں خواب تھی دنیا میری
جنت شوق تھی بیگانہ آفات سموم
درد جب درد نہ ہو کاوش درماں معلوم
خاک تھے دیدۂ بیباک میں گردوں کے نجوم
بزم پرویں تھی نگاہوں میں کنیزوں کا ہجوم
لیلیٰ ناز برافگندہ نقاب آتی تھی
اپنی آنکھوں میں لیے دعوت خواب آتی تھی
سنگ کو گوہر نایاب و گراں جانا تھا
دشت پر خار کو فردوس جواں جانا تھا
ریگ کو سلسلۂ آب رواں جانا تھا
آہ یہ راز ابھی میں نے کہاں جانا تھا
میری ہر فتح میں ہے ایک ہزیمت پنہاں
ہر مسرت میں ہے راز غم و حسرت پنہاں
کیا سنوگی مری مجروح جوانی کی پکار
میری فریاد جگر دوز مرا نالۂ زار
شدت کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار
وہ گداز دل مرحوم کہاں سے لاؤں
اب میں وہ جذبۂ معصوم کہاں سے لاؤں
میرے سائے سے ڈرو تم مری قربت سے ڈرو
اپنی جرأت کی قسم اب میری جرأت سے ڈرو
تم لطافت ہو اگر میری لطافت سے ڈرو
میرے وعدوں سے ڈرو میری محبت سے ڈرو
اب میں الطاف و عنایت کا سزا وار نہیں
میں وفادار نہیں ہاں میں وفادار نہیں
اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |