Jump to content

اعتراف (مجاز لکھنوی)

From Wikisource
اعتراف
by مجاز لکھنوی
304546اعترافمجاز لکھنوی

اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو

میں نے مانا کہ تم اک پیکر رعنائی ہو
چمن دہر میں روح چمن آرائی ہو
طلعت مہر ہو فردوس کی برنائی ہو
بنت مہتاب ہو گردوں سے اتر آئی ہو

مجھ سے ملنے میں اب اندیشۂ رسوائی ہے
میں نے خود اپنے کیے کی یہ سزا پائی ہے

خاک میں آہ ملائی ہے جوانی میں نے
شعلہ زاروں میں جلائی ہے جوانی میں نے
شہر خوباں میں گنوائی ہے جوانی میں نے
خواب گاہوں میں جگائی ہے جوانی میں نے

حسن نے جب بھی عنایت کی نظر ڈالی ہے
میرے پیمان محبت نے سپر ڈالی ہے

ان دنوں مجھ پہ قیامت کا جنوں طاری تھا
سر پہ سرشارئ عشرت کا جنوں طاری تھا
ماہ پاروں سے محبت کا جنوں طاری تھا
شہریاروں سے رقابت کا جنوں طاری تھا

بستر مخمل و سنجاب تھی دنیا میری
ایک رنگین و حسیں خواب تھی دنیا میری

جنت شوق تھی بیگانہ آفات سموم
درد جب درد نہ ہو کاوش درماں معلوم
خاک تھے دیدۂ بیباک میں گردوں کے نجوم
بزم پرویں تھی نگاہوں میں کنیزوں کا ہجوم

لیلیٰ ناز برافگندہ نقاب آتی تھی
اپنی آنکھوں میں لیے دعوت خواب آتی تھی

سنگ کو گوہر نایاب و گراں جانا تھا
دشت پر خار کو فردوس جواں جانا تھا
ریگ کو سلسلۂ آب رواں جانا تھا
آہ یہ راز ابھی میں نے کہاں جانا تھا

میری ہر فتح میں ہے ایک ہزیمت پنہاں
ہر مسرت میں ہے راز غم و حسرت پنہاں

کیا سنوگی مری مجروح جوانی کی پکار
میری فریاد جگر دوز مرا نالۂ زار
شدت کرب میں ڈوبی ہوئی میری گفتار
میں کہ خود اپنے مذاق طرب آگیں کا شکار

وہ گداز دل مرحوم کہاں سے لاؤں
اب میں وہ جذبۂ معصوم کہاں سے لاؤں

میرے سائے سے ڈرو تم مری قربت سے ڈرو
اپنی جرأت کی قسم اب میری جرأت سے ڈرو
تم لطافت ہو اگر میری لطافت سے ڈرو
میرے وعدوں سے ڈرو میری محبت سے ڈرو
اب میں الطاف و عنایت کا سزا وار نہیں
میں وفادار نہیں ہاں میں وفادار نہیں

اب مرے پاس تم آئی ہو تو کیا آئی ہو


This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.