اصحابِ درد کو ہے عجب تیزیِ خیال

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اصحابِ درد کو ہے عجب تیزیِ خیال
by مصطفٰی خان شیفتہ

اصحابِ درد کو ہے عجب تیزیِ خیال
مثل زبانِ نطق قلم کی زبانِ حال

عہدِ وفا کیا ہے، نباہیں گے، شک عبث
وعدہ کیا ہے، آئیں گے، بے جا ہے احتمال

کیا کچھ وہاں سے منزلِ مقصود پاس ہے
یا ایھاالذینَ سَکَنتم عَلَی الجبَال

ناز و غرور ٹھیک ہے، جور و جفا درست
کس کے ہوا نصیب یہ حسن اور یہ جمال

ساقی پلا وہ بادہ کہ غفلت ہو آگہی
مطرب سنا وہ نغمہ کہ ہو جس سے قال، حال

ہم اگلے عشق والوں کی تقلید کیوں کریں
اے خوردہ گیر، نحن رجال و ہم رجال

اہلِ طریق کی بھی روش سب سے ہے الگ
جتنا زیادہ شغل زیادہ فراغ بال

ہنگامِ عہد کام میں لائے وہ ایسے لفظ
جن کو معانیِ متعدد پر اشتمال

ماذا لتنہبن و انتن فی البیوت
ماذا تقتلن و انتن فی الحجال

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse