اشک ٹپکے حال دل کا کھل گیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اشک ٹپکے حال دل کا کھل گیا
by دیا شنکر نسیم

اشک ٹپکے حال دل کا کھل گیا
دیدۂ گریاں سے پردہ کھل گیا

دل سے امڈے اشک خوں آنکھوں کی راہ
جوش مے سے خم کا ڈھکنا کھل گیا

کوچۂ جاناں کی ملتی تھی نہ راہ
بند کیں آنکھیں تو رستہ کھل گیا

ہر گرہ میں اس کے تھے عاشق کے دل
زلف کے کھلتے ہی عقدہ کھل گیا

نرگس جادو ہے اب عالم فریب
زلف کا لوگوں پہ لٹکا کھل گیا

جان کر عنقا کمر کو یار کے
زلف نے پھانسا تھا پھندا کھل گیا

آج کیونکر ہو خبر اس کو نسیمؔ
شعر پڑھنے کا بھی فقرا کھل گیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse