اشک افتادہ نظر آتے ہیں سارے دریا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اشک افتادہ نظر آتے ہیں سارے دریا
by وزیر علی صبا لکھنؤی

اشک افتادہ نظر آتے ہیں سارے دریا
سیل گریہ نے یہ نظروں سے اتارے دریا

دیکھ لیں گر مری اشکوں کے شرارے دریا
خشک برسات میں ہوں خوف کے مارے دریا

دونوں چشموں سے مری اشک بہا کرتے ہیں
موج زن رہتا ہے دریا کے کنارے دریا

رغبت اس ترک کو مچھلی کے کبابوں سے نہیں
آتش شوق سے شیخی نہ بگھارے دریا

کام اشکوں کی روانی سے نہ نکلا آخر
جستجوئے در مقصود میں ہارے دریا

جس کو عزت دے اسے پھر نہ کرے بے عزت
کلہ سر نہ حبابوں کی اتارے دریا

ساتھ غیروں کے وہاں تم تو نہانے کو گئے
روئے یاں ہم غم فرقت میں تمہارے دریا

حاصل گوہر مقصود ہے رونے سے مجھے
دیدۂ تر کے بدولت ہے اجارے دریا

آنکھ سے مجھ کو بلاتا نہیں وہ قلزم حسن
چشم گرداب سے کرتا ہے اشارے دریا

بار الفت کو جو لے سر پہ تو نکلے نہ کسک
تا قیامت کمر کوہ جو دھارے دریا

جب میں روتا ہوں نظر آتا ہے پانی پانی
دم گریہ مری آنکھوں کے ہیں تارے دریا

فرقت یار میں کیا سیر کریں دریا کی
اے صباؔ دیدۂ گریاں ہیں ہمارے دریا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse