اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
by نسیم دہلوی

اشک آنکھوں میں ڈر سے لا نہ سکے
دل کی بھڑکی ہوئی بجھا نہ سکے

نہ ہلی جب زباں نزاکت سے
رہ گئے دیکھ کر بلا نہ سکے

تھیں جو اس میں حیا کی کچھ باتیں
شکوہ میرا وہ لب پہ لا نہ سکے

کیا ہوئے تیرے حوصلے اے اشک
حرف تقدیر کو مٹا نہ سکے

تھا یہ خطرہ کہیں پسند نہ ہوں
گالیاں بھی مجھے سنا نہ سکے

گو بہت پاس غیر تھا لیکن
آنکھ ہم سے بھی وہ چرا نہ سکے

پاؤں چوما کیے حنا کی طرح
جب کوئی اور رنگ لا نہ سکے

خامشی تھی بہ شکل زخم مجھے
لب تک اپنے سوال آ نہ سکے

نہ ملی اس نے پاؤں میں مہندی
رنگ اپنا عدو جما نہ سکے

اضطراب قضا ہوا یہ نسیمؔ
کہ گلے بھی اسے لگا نہ سکے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse