اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا
by حیدر علی آتش

اس کے کوچے میں مسیحا ہر سحر جاتا رہا
بے اجل واں ایک دو ہر رات مر جاتا رہا

کوئے جاناں میں بھی اب اس کا پتہ ملتا نہیں
دل مرا گھبرا کے کیا جانے کدھر جاتا رہا

جانب کہسار جا نکلا جو میں تو کوہ کن
اپنا تیشہ میرے سر سے مار کر جاتا رہا

نے کشش معشوق میں پاتا ہوں نے عاشق میں جذب
کیا بلا آئی محبت کا اثر جاتا رہا

واہ رے اندھیر بہر روشنیٔ شہر مصر
دیدۂ یعقوب سے نور نظر جاتا رہا

نشہ ہی میں یا الٰہی میکشوں کو موت دے
کیا گہر کی قدر جب آب گہر جاتا رہا

اک نہ اک مونس کی فرقت کا فلک نے غم دیا
درد دل پیدا ہوا درد جگر جاتا رہا

حسن کھو کر آشنا ہم سے ہوا وہ نونہال
پہنچے تب زیر شجر ہم جب ثمر جاتا رہا

رنج دنیا سے فراغ ایذا دہندوں کو نہیں
کب تپ شیرا اتری کس دن درد سر جاتا رہا

فاتحہ پڑھنے کو آئے قبر آتشؔ پر نہ یار
دو ہی دن میں پاس الفت اس قدر جاتا رہا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse