اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
by میر مہدی مجروح

اس کے نبھنے کے کچھ نہیں اسباب
وہ تغافل شعار میں بے تاب

واجب القتل ہے دل بے تاب
کشتہ ہونا ہی خوب ہے سیماب

ابر کی تیرگی میں ہم کو تو
سوجھتا کچھ نہیں سوائے شراب

اپنی کشتی کا ہے خدا حافظ
پیچھے طوفاں ہے سامنے گرداب

بوسہ مانگا تو یہ جواب ملا
سیکھئے پہلے عشق کے آداب

اس کو پھرتا ہے ڈھونڈھتا ہر سو
کیوں کر آنکھوں سے اڑ نہ جائے خواب

درد الفت جو ہوتے ہی مرتے
یہ اذیت نہ کھینچتے احباب

نہیں ممکن کہ جمع ہوں دونوں
ساقیٔ مہروش شب مہتاب

سامنے اس کے جو ٹھہر جائیں
نہیں بے تابیوں کو اتنی تاب

اہل عالم سے چاہتا ہوں وفا
اس کا طالب ہوں جو کہ ہے نایاب

عشق کے ساتھ ہی گئے دل و دیں
آ گئی سیل بہہ گیا اسباب

صاف فقرے ہوں اور ہمیں پر ہوں
شیوہ اچھا تو ہے مرا آداب

ہوتی گر اس جہاں میں کچھ خوبی
کہتے کیوں پھر صفت میں اس کی خراب

آزمانا نہ دل کو سختی سے
ٹوٹ جائے نہ یہ در نایاب

کس طرح بحر عشق سے نکلوں
یہ تو دریا کہیں نہیں پایاب

شعلۂ حسن تیرا کیا کہنا
پھونک دے اس کے پردہ ہائے حجاب

اس کی شوخی کا ہے تعجب کیا
حسن یہ کچھ اور اس پہ عین شباب

غالبؔ آئے ہیں لاؤ اے مجروحؔ
بادۂ ناب میں ملا کے گلاب

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse