اس کی نظروں میں انتخاب ہوا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
by جگر مراد آبادی

اس کی نظروں میں انتخاب ہوا
دل عجب حسن سے خراب ہوا

عشق کا سحر کامیاب ہوا
میں تیرا تو مرا جواب ہوا

ہر نفس موج اضطراب ہوا
زندگی کیا ہوئی عذاب ہوا

جذبۂ شوق کامیاب ہوا
آج مجھ سے انہیں حجاب ہوا

میں بنوں کس لیے نہ مست شراب
کیوں مجسم کوئی شباب ہوا

نگۂ ناز لے خبر ورنہ
درد محبوب اضطراب ہوا

میری بربادیاں درست مگر
تو بتا کیا تجھے ثواب ہوا

عین قربت بھی عین فرقت بھی
ہائے وہ قطرہ جو حباب ہوا

مستیاں ہر طرف ہیں آوارہ
کون غارت گر شراب ہوا

دل کو چھونا نہ اے نسیم کرم
اب یہ دل روکش حباب ہوا

عشق بے امتیاز کے ہاتھوں
حسن خود بھی شکست یاب ہوا

جب وہ آئے تو پیشتر سب سے
میری آنکھوں کو اذن خواب ہوا

دل کی ہر چیز جگمگا اٹھی
آج شاید وہ بے نقاب ہوا

دور ہنگامۂ نشاط نہ پوچھ
اب وہ سب کچھ خیال و خواب ہوا

تو نے جس اشک پر نظر ڈالی
جوش کھا کر وہی شراب ہوا

ستم خاص یار کی ہے قسم
کرم یار بے حساب ہوا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse