Jump to content

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

From Wikisource
اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
by امیر مینائی
295070اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوںامیر مینائی

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں

ڈال کے خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کہ چھپا بھی نہ سکوں

ضبط کمبخت نے یاں آ کے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤں تو سنا بھی نہ سکوں

نقش پا دیکھ تو لوں لاکھ کروں گا سجدے
سر مرا عرش نہیں ہے جو جھکا بھی نہ سکوں

بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنے قلم سے مجھ کو
یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں

اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے میرے زانو پر
اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.