اس کی جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کی جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
by میر حسن دہلوی

اس کی جب بزم سے ہم ہو کے بتنگ آتے ہیں
اپنے ساتھ آپ ہی کرتے ہوے جنگ آتے ہیں

حسن میں جب تئیں گرمی نہ ہو جی دیوے کون
شمع تصویر کے کب گرد پتنگ آتے ہیں

دل کو کس بو قلموں جلوہ نے ہے خون کیا
اشک آنکھوں سے جو یہ رنگ برنگ آتے ہیں

آہ تعظیم کو اٹھتی ہے مرے سینہ سے
دل پہ جب اس کی نگاہوں کے خدنگ آتے ہیں

شرط گر پوچھو تو ہے اس میں بھی قسمت ورنہ
عاشقی کرنے کے ہر ایک کو ڈھنگ آتے ہیں

نخل وحشت بھی مگر ان کا ثمر رکھتا ہے
ہر طرف سے جو یہ دیواروں پہ سنگ آتے ہیں

حیرت افزا ہے عجب کوچۂ دل دار حسنؔ
جو وہاں جاتے ہیں اس طرف سے دنگ آتے ہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse