اس کو میں ہوئے ہم وہ لب بام نہ آیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کو میں ہوئے ہم وہ لب بام نہ آیا
by میر تسکینؔ دہلوی

اس کو میں ہوئے ہم وہ لب بام نہ آیا
اے جذبۂ دل تو بھی کسی کام نہ آیا

تھا میری طرح غیر کو بھی دعوئ الفت
ناصح تو اسے دینے کو الزام نہ آیا

بے بال و پری کھوتی ہے توقیر اسیری
صیاد یہاں لے کے کبھی دام نہ آیا

اس ناز کے صدقے ہوں ترے میں کہ عدو سے
سو بار سنا ہے پہ مرا نام نہ آیا

کیا جانیے کس طرح دیا تو نے جواب آہ
قاصد کی زباں پر ترا پیغام نہ آیا

تسکینؔ کروں کیا دل مضطر کا علاج اب
کم بخت کو مر کر بھی تو آرام نہ آیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse