اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
by حفیظ جونپوری

اس کو آزادی نہ ملنے کا ہمیں مقدور ہے
ہم ادھر مجبور ہیں اور وہ ادھر مجبور ہے

شب کو چھپ کر آئیے آنا اگر منظور ہے
آپ کے گھر سے ہمارا گھر ہی کتنی دور ہے

لاکھ منت کی مگر اک بات بھی منہ سے نہ کی
آپ کی تصویر بھی کتنی بڑی مغرور ہے

اس اندھیری رات میں اے شیخ پہچانے گا کون
بند ہے مسجد کا در تو مے کدہ کیا دور ہے

ایک رشک غیر کا صدمہ تو اٹھ سکتا نہیں
اور جو فرمائیے سب کچھ ہمیں منظور ہے

مر گیا دشمن تو اس کا سوگ تم کو کیا ضرور
کون سی یہ رسم ہے یہ کون سا دستور ہے

زاہد اس امید پر ملنا حسینوں سے نہ چھوڑ
خلد میں نادان تیرے ہی لیے کیا حور ہے

حشر کے دن کیا کہیں گے یہ اگر آیا خیال
شکوہ کرنا یار کا پاس وفا سے دور ہے

کچھ حفیظؔ ایسا نہیں جس سے کہ تم واقف نہ ہو
آدمی وہ تو بہت معروف ہے مشہور ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse