اس کمر کے خیال میں ہیں ہم

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کمر کے خیال میں ہیں ہم
by جوشش عظیم آبادی

اس کمر کے خیال میں ہیں ہم
بیٹھے کرتے ہیں سیر ملک عدم

بے خودی ہم پہ رکھیو لطف و کرم
اپنے تئیں بھول جائیں جب تک ہم

کیوں گنہ گار ہو نہ نوع بشر
پہلے ہی چوکے حضرت آدم

آہ اس بحر میں حباب کی طرح
اپنی بھی زندگی ہے کوئی دم

دی ہے دھونی در توکل پر
چھوڑ دی ہم نے منت عالم

دیکھنے بھی نہ پائے قاتل کو
زخم اتنے ہی لگ گئے پیہم

نیلگوں کیوں نہ ہو حصار رنگ
ہے سیہ پوش خانۂ ماتم

لطف ہوتا جو عیش میں ؔجوشش
چھوڑ دیتا نہ سلطنت ادہم


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.