اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
by شاہ نصیر

اس کاکل پر خم کا خلل جائے تو اچھا
دل سر سے بلا تیرے یہ ٹل جائے تو اچھا

بوسے کا سوال اس سے کروں ہوں تو کہے ہے
چل رے مرے کچھ منہ سے نکل جائے تو اچھا

اثبات نہ ہو دعوئ خوں اس پہ الٰہی
صورت مرے قاتل کی بدل جائے تو اچھا

لے سر پے وبال اپنے پتنگوں کا نہ اے شمع
تو اور بھی جوبن سے جو ڈھل جائے تو اچھا

ڈسنے کو مرا دل ہے تری زلف کی ناگن
طاؤس خط اس کو جو نگل جائے تو اچھا

ہم چشمی تیری چشم سے کرتا ہے یہ بادام
اس کو کوئی پتھر سے کچل جائے تو اچھا

زلفوں کے تصرف میں ہے بے وجہ رخ یار
کفار کا کعبہ سے عمل جائے تو اچھا

خوں ہو کے رواں دل ہو گر آنکھوں سے تو بہتر
یا عشق کی آتش میں یہ جل جائے تو اچھا

لب پر سے بلاق اپنی دم بوسہ اٹھا دو
اندیشۂ زنبور عسل جائے تو اچھا

پہلو سے نکل جائے اگر دل تو بلا سے
تو چھوڑ کے خالی نہ بغل جائے تو اچھا

کہتے ہیں نصیرؔ اپنی نہ تم آہ کو روکو
یہ تیر نشانے پہ جو چل جائے تو اچھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse