اس ڈر سے میں نے زلف کی اس کی نہ بات کی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس ڈر سے میں نے زلف کی اس کی نہ بات کی
by میر حسن دہلوی

اس ڈر سے میں نے زلف کی اس کی نہ بات کی
جاتی ہے دور دور تک آواز رات کی

دیکھا جب آنکھ کھول کے مثل حباب تب
معلوم کائنات ہوئی کائنات کی

اس بلبل چمن کی ہوئی عاقبت بخیر
سائے میں جس نے آن کے گل کے وفات کی

میں ہوں صفات ہی کے تحیر میں ہم نشیں
کیا بات مجھ سے پوچھے ہے تو اس کی ذات کی

دل اپنا اس کو دیجیے یا جی کو کھوئیے
اس کے سوا طرح نہیں کوئی نجات کی

بولا اگر تو قند مکرر ہوئے وہ لب
اور چپ رہا تو یہ بھی ہے صورت نبات کی

واقف ہو کیوں نہ شعلۂ آتش سے دل کے وہ
رہتی ہے باغباں کو خبر پھول پات کی

شہ چال ہو رہا ہوں صنم تیرے عشق میں
تو نے دکھا کے رخ مری بازی ہی مات کی

زلف عرق فشاں تری جاں بخش کیوں نہ ہو
ترکیب اس نے پائی ہے آب حیات کی

اس سر سے غیر سر نہیں واقف کوئی غرض
لذت بیاں میں آتی نہیں تیری لات کی

چوں زندگی و مرگ ہیں آپس میں ضد حسنؔ
چشم و لب اس کی ضد ہے حیات و ممات کی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse