اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا
by زین العابدین خاں عارف

اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا
مجھ کو ایک لطف کی کر کے جو نظر چھوڑ دیا

سونپ کر خانۂ دل غم کو کدھر جاتے ہو
پھر نہ پاؤ گے اگر اس نے یہ گھر چھوڑ دیا

اشک سوزاں نے جلائے مرے لاکھوں دامن
پونچھنا میں نے تو اب دیدۂ تر چھوڑ دیا

بخیہ گر جل گیا کیا ہاتھ ترا سوزش سے
کرتے کرتے جو رفو چاک جگر چھوڑ دیا

گلشن دہر میں خامی نے بچایا ہم کو
دیکھ کر خام کدورت نے ثمر چھوڑ دیا

لے گئے سامنے حاکم کے مرے قاتل کو
اس کو اس نے بھی سمجھ خون پدر چھوڑ دیا

نیک و بد کچھ نظر آتا نہیں وہ وحشت ہے
پردہ غفلت کا مرے پیش نظر چھوڑ دیا

کوچۂ زلف کو کترا کے گیا دل رخ پر
اس نے وہ رستۂ پر خوف و خطر چھوڑ دیا

اے فلک خانہ خرابی کی ہے پروا کس کو
دشت میں رہتے ہیں مدت ہوئی گھر چھوڑ دیا

مجھ پہ احسان صبا کا ہے کہ کوچہ میں ترے
خاک کو میری سر راہ گزر چھوڑ دیا

مجھ کو اے آہ تعجب ہے کہ کاشانۂ غیر
کل شب ہجر نے برسا کے شرر چھوڑ دیا

بھر گیا دل مرا ایک چیز کو کھاتے کھاتے
خون دل کھائیں گے اب خون جگر چھوڑ دیا

بوجھ سے آپ ہی مر جائے گا کیوں ہو بد نام
یہ سمجھ کر بت سفاک نے سر چھوڑ دیا

نہیں تیر نگہ یار سے بچنا ممکن
کل ہے موجود وہ دن آج اگر چھوڑ دیا

آ گیا دل میں جو عالم کا مسخر کرنا
زلف کو چہرے پہ ہنگام سحر چھوڑ دیا

یہ نہیں ہے رہ بت خانہ کدھر جانا ہے
آج سے ہم نے ترا ساتھ خضر چھوڑ دیا

کر دیا تیروں سے چھلنی مجھے سارا لیکن
خون ہونے کے لیے اس نے جگر چھوڑ دیا

ساتھ دیکھا تھا اسے کل تو تیرے اے مجنوں
آج اس عارفؔ وحشی کو کدھر چھوڑ دیا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse