اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا
اس پہ کرنا مرے نالوں نے اثر چھوڑ دیا
مجھ کو ایک لطف کی کر کے جو نظر چھوڑ دیا
سونپ کر خانۂ دل غم کو کدھر جاتے ہو
پھر نہ پاؤ گے اگر اس نے یہ گھر چھوڑ دیا
اشک سوزاں نے جلائے مرے لاکھوں دامن
پونچھنا میں نے تو اب دیدۂ تر چھوڑ دیا
بخیہ گر جل گیا کیا ہاتھ ترا سوزش سے
کرتے کرتے جو رفو چاک جگر چھوڑ دیا
گلشن دہر میں خامی نے بچایا ہم کو
دیکھ کر خام کدورت نے ثمر چھوڑ دیا
لے گئے سامنے حاکم کے مرے قاتل کو
اس کو اس نے بھی سمجھ خون پدر چھوڑ دیا
نیک و بد کچھ نظر آتا نہیں وہ وحشت ہے
پردہ غفلت کا مرے پیش نظر چھوڑ دیا
کوچۂ زلف کو کترا کے گیا دل رخ پر
اس نے وہ رستۂ پر خوف و خطر چھوڑ دیا
اے فلک خانہ خرابی کی ہے پروا کس کو
دشت میں رہتے ہیں مدت ہوئی گھر چھوڑ دیا
مجھ پہ احسان صبا کا ہے کہ کوچہ میں ترے
خاک کو میری سر راہ گزر چھوڑ دیا
مجھ کو اے آہ تعجب ہے کہ کاشانۂ غیر
کل شب ہجر نے برسا کے شرر چھوڑ دیا
بھر گیا دل مرا ایک چیز کو کھاتے کھاتے
خون دل کھائیں گے اب خون جگر چھوڑ دیا
بوجھ سے آپ ہی مر جائے گا کیوں ہو بد نام
یہ سمجھ کر بت سفاک نے سر چھوڑ دیا
نہیں تیر نگہ یار سے بچنا ممکن
کل ہے موجود وہ دن آج اگر چھوڑ دیا
آ گیا دل میں جو عالم کا مسخر کرنا
زلف کو چہرے پہ ہنگام سحر چھوڑ دیا
یہ نہیں ہے رہ بت خانہ کدھر جانا ہے
آج سے ہم نے ترا ساتھ خضر چھوڑ دیا
کر دیا تیروں سے چھلنی مجھے سارا لیکن
خون ہونے کے لیے اس نے جگر چھوڑ دیا
ساتھ دیکھا تھا اسے کل تو تیرے اے مجنوں
آج اس عارفؔ وحشی کو کدھر چھوڑ دیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |