اس وہم کی انتہا نہیں ہے
Appearance
اس وہم کی انتہا نہیں ہے
سب کچھ ہے مگر خدا نہیں ہے
کیا اس کا سراغ کوئی پائے
جس چیز کی ابتدا نہیں ہے
کھلتا ہی نہیں فریب ہستی
کچھ بھی نہیں اور کیا نہیں ہے
اس طرح ستم وہ کر رہے ہیں
جیسے میرا خدا نہیں ہے
تم خوش ہو تو ہے مجھے ندامت
ہر چند مری خطا نہیں ہے
دیکھو تو نگاہ واپسیں کو
اس ایک نظر میں کیا نہیں ہے
دنیا کا بھرم نہ کھول اے آہ
یہ راز ابھی کھلا نہیں ہے
ہر ذرہ ہے شاہد تجلی
اس حسن کی انتہا نہیں ہے
سرگرم تلاش رہنے والے
تیرا بھی کہیں پتا نہیں ہے
امڈا ہے جو دل عزیزؔ رو لو
آنسو کوئی روکتا نہیں ہے
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |