اس وہم کی انتہا نہیں ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس وہم کی انتہا نہیں ہے
by عزیز لکھنوی

اس وہم کی انتہا نہیں ہے
سب کچھ ہے مگر خدا نہیں ہے

کیا اس کا سراغ کوئی پائے
جس چیز کی ابتدا نہیں ہے

کھلتا ہی نہیں فریب ہستی
کچھ بھی نہیں اور کیا نہیں ہے

اس طرح ستم وہ کر رہے ہیں
جیسے میرا خدا نہیں ہے

تم خوش ہو تو ہے مجھے ندامت
ہر چند مری خطا نہیں ہے

دیکھو تو نگاہ واپسیں کو
اس ایک نظر میں کیا نہیں ہے

دنیا کا بھرم نہ کھول اے آہ
یہ راز ابھی کھلا نہیں ہے

ہر ذرہ ہے شاہد تجلی
اس حسن کی انتہا نہیں ہے

سرگرم تلاش رہنے والے
تیرا بھی کہیں پتا نہیں ہے

امڈا ہے جو دل عزیزؔ رو لو
آنسو کوئی روکتا نہیں ہے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse