اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں
by نظم طباطبائی

اس واسطے عدم کی منزل کو ڈھونڈتے ہیں
مدت سے دوستوں کی محفل کو ڈھونڈتے ہیں

یہ دل کے پار ہو کر پھر دل کو ڈھونڈتے ہیں
تیر نگاہ اس کے بسمل کو ڈھونڈتے ہیں

اک لہر میں نہ تھے ہم کیوں اے حباب دیکھا
یوں آنکھ بند کر کے ساحل کو ڈھونڈتے ہیں

طرز کرم کی شاہد ہیں میوہ دار شاخیں
اس طرح سر جھکا کر سائل کو ڈھونڈتے ہیں

ہے وصل و ہجر اپنا اے قیس طرفہ مضموں
محمل میں بیٹھے ہیں اور محمل کو ڈھونڈتے ہیں

طول امل کا رستہ ممکن نہیں کہ طے ہو
منزل پہ بھی پہنچ کر منزل کو ڈھونڈتے ہیں

حسرت شباب کی ہے ایام شیب میں بھی
معدوم کی ہوس ہے زائل کو ڈھونڈتے ہیں

اٹھتے ہیں ولولے کچھ ہر بار درد بن کر
کیا جانیے جگر کو یا دل کو ڈھونڈتے ہیں

زخم جگر کا میرے ہے رشک دوستوں کو
مرتا ہوں میں کہ یہ کیوں قاتل کو ڈھونڈتے ہیں

اہل ہوس کی کشتی یک بام و دو ہوا ہے
دریائے عشق میں بھی ساحل کو ڈھونڈتے ہیں

آیا جو رحم مجھ پر اس میں بھی چال ہے کچھ
سینہ پہ ہاتھ رکھ کر اب دل کو ڈھونڈتے ہیں

کرتے ہیں کار فرہاد آساں زمین میں بھی
مشکل پسند ہیں ہم مشکل کو ڈھونڈتے ہیں

اے خضر پئے خجستہ بہر خدا کرم کر
بھٹکے ہوئے مسافر منزل کو ڈھونڈتے ہیں

دل خواہ تیرے عشوے دل جو ترے اشارے
وہ دل ٹٹولتے ہیں یہ دل کو ڈھونڈتے ہیں

اے نظمؔ کیا بتائیں حج و طواف اپنا
کعبے میں بھی کسی کی محمل کو ڈھونڈتے ہیں

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse