اس نہیں کا کوئی علاج نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
by داغ دہلوی

اس نہیں کا کوئی علاج نہیں
روز کہتے ہیں آپ آج نہیں

کل جو تھا آج وہ مزاج نہیں
اس تلون کا کچھ علاج نہیں

آئنہ دیکھتے ہی اترائے
پھر یہ کیا ہے اگر مزاج نہیں

لے کے دل رکھ لو کام آئے گا
گو ابھی تم کو احتیاج نہیں

ہو سکیں ہم مزاج داں کیونکر
ہم کو ملتا ترا مزاج نہیں

چپ لگی لعل جاں فزا کو ترے
اس مسیحا کا کچھ علاج نہیں

دل بے مدعا خدا نے دیا
اب کسی شے کی احتیاج نہیں

کھوٹے داموں میں یہ بھی کیا ٹھہرا
درہم داغ کا رواج نہیں

بے نیازی کی شان کہتی ہے
بندگی کی کچھ احتیاج نہیں

دل لگی کیجئے رقیبوں سے
اس طرح کا مرا مزاج نہیں

عشق ہے پادشاہ عالم گیر
گرچہ ظاہر میں تخت و تاج نہیں

درد فرقت کی گو دوا ہے وصال
اس کے قابل بھی ہر مزاج نہیں

یاس نے کیا بجھا دیا دل کو
کہ تڑپ کیسی اختلاج نہیں

ہم تو سیرت پسند عاشق ہیں
خوب رو کیا جو خوش مزاج نہیں

حور سے پوچھتا ہوں جنت میں
اس جگہ کیا بتوں کا راج نہیں

صبر بھی دل کو داغؔ دے لیں گے
ابھی کچھ اس کی احتیاج نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse