اس مہ جبیں سے آج ملاقات ہو گئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس مہ جبیں سے آج ملاقات ہو گئی
by اختر شیرانی

اس مہ جبیں سے آج ملاقات ہو گئی
بے درد آسمان یہ کیا بات ہو گئی

آوارگان عشق کا مسکن نہ پوچھئے
پڑ رہتے ہیں وہیں پہ جہاں رات ہو گئی

ذکر شب وصال ہو کیا قصہ مختصر
جس بات سے وہ ڈرتے تھے وہ بات ہو گئی

مسجد کو ہم چلے گئے مستی میں بھول کر
ہم سے خطا یہ پیر خرابات ہو گئی

پچھلے غموں کا ذکر ہی کیا جب وہ مل گئے
اے آسماں تلافئ مافات ہو گئی

زاہد کو زندگی ہی میں کوثر چکھا دیا
رندوں سے آج یہ بھی کرامات ہو گئی

بے چین رکھنے والے پریشاں ہوں خود نہ کیوں
آخر کو تیری زلف مری رات ہو گئی

جھولا جھلائیں چل کے حسینوں کو باغ میں
گجرات میں سنا ہے کہ برسات ہو گئی

کیا فائدہ اب اخترؔ اگر پارسا بنے
جب ساری عمر نذر خرابات ہو گئی

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse