اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا
by فروغ حیدرآبادی

اس قدر محو تصور ہوں ستم گر تیرا
مجھ کو غربت میں نظر آنے لگا گھر تیرا

نشۂ مے کی بجھی پیاس نہ کچھ بھی افسوس
نام سنتے تھے بڑا چشمۂ کوثر تیرا

اپنے پامالیٔ دل کا مجھے افسوس نہیں
دیکھ ظالم نہ بگڑ جائے کہیں گھر تیرا

وہ بھی ہیں لوگ جو ہم بزم رہا کرتے تھے
ہم تو جیتے ہیں فقط نام ہی لے کر تیرا

جلوۂ طور کو کچھ اس کی نظر سے بھانپا
جس نے دیکھا ہے جمال رخ انور تیرا

زندگی اس کی نصیب اس کے ہیں راتیں اس کی
جس کو ہو جلوۂ دیدار میسر تیرا

ہم نے کوشش تو بہت کی تھی اسے لانے کی
اے فروغؔ جگر افگار مقدر تیرا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse