اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
by صفدر مرزا پوری

اس قدر دور سمجھنے لگے وہ دل سے مجھے
موت کیا نیند بھی اب آئے گی مشکل سے مجھے

دی حیات ابدی اس نے گلے سے مل کر
مل گئی داد وفا خنجر قاتل سے مجھے

دے چکے غیر کو دل ان سے کچھ امید نہیں
اپنے پہلو میں جگہ دیں گے وہ کس دل سے مجھے

دل بیتاب سنبھالے سے سنبھلتا ہی نہیں
یہ نکلوا کے رہے گا تری محفل سے مجھے

لے گئے آج یہ کہہ کر وہ مرے پہلو سے
ہے محبت بہت ارمان بھرے دل سے مجھے

شکوے کرتا ہوں تغافل کے تو کہتا ہے کوئی
بات ہی کیا ہے بھلا دیجئے اب دل سے مجھے

اس طرح فکر سخن نے مجھے کھویا صفدرؔ
موت بھی ڈھونڈھے تو اب پائے گی مشکل سے مجھے

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse