اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا
by جگر مراد آبادی

اس عشق کے ہاتھوں سے ہرگز نہ مفر دیکھا
اتنی ہی بڑھی حسرت جتنا ہی ادھر دیکھا

تھا کھیل سا پہلے عشق لیکن جو کھلیں آنکھیں
ڈوبا ہوا رگ رگ میں وہ تیر نظر دیکھا

سب ہو گئی اٹھ اٹھ کر اک باز نثار شمع
پروانوں نے کیا جانے کیا وقت سحر دیکھا

وہ اشک بھری آنکھیں اور درد بھرے نالے
اللہ نہ دکھلائے جو وقت سحر دیکھا

قرباں تری آنکھوں کے صدقے تری نظروں کے
تھا حاصل صد ناوک جو زخم جگر دیکھا

جاتے رہے دم بھر میں سارے ہی گلے شکوے
اس جان تغافل نے جب ایک نظر دیکھا

عہد غم فرقت میں دل اور جگر کیسے
اک زخم ادھر پایا اک داغ ادھر دیکھا

تھا باعث رسوائی ہر چند جنوں میرا
ان کو بھی نہ چین آیا جب تک نہ ادھر دیکھا

اس چشم غزالیں کو مے خانہ دل پایا
اس روئے نگاریں کو فردوس نظر دیکھا

یوں دل کو تڑپنے کا کچھ تو ہے سبب آخر
یا درد نے کروٹ لی یا تم نے ادھر دیکھا

کیا جانئے کیا گزری ہنگام جنوں لیکن
کچھ ہوش ہو آیا تو اجڑا ہوا گھر دیکھا

ماتھے پہ پسینا کیوں آنکھوں میں نمی کیسی
کچھ خیر تو ہی تم نے کیا حال جگر دیکھا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse