اس عشق جنوں خیز میں کیا کیا نہیں ہوتا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس عشق جنوں خیز میں کیا کیا نہیں ہوتا
by ریاض خیرآبادی

اس عشق جنوں خیز میں کیا کیا نہیں ہوتا
دیوانہ ہے جو قیس سے لیلیٰ نہیں ہوتا

کچھ حشر لحد پر ابھی برپا نہیں ہوتا
آئے ہو تو ٹھہرو کوئی زندہ نہیں ہوتا

کیوں کر یہ کہوں حسن کا نشہ نہیں ہوتا
ہوتا تو بہت ہے مگر اتنا نہیں ہوتا

کچھ کہئے تو شرما کے جھکا لیتے ہیں گردن
بھولے سے بھی اب وعدۂ فردا نہیں ہوتا

ملتے ہیں وہ دل سرخ ہوئی جاتی ہے چٹکی
نازک ہیں بہت خون تمنا نہیں ہوتا

دیتی ہے مزا مے کا ہمیں تلخئ توبہ
جب ہاتھ میں پیمانۂ صہبا نہیں ہوتا

وہ حشر کے دن کشتے کو ٹھکرا چکے سو بار
کچھ جان سی پڑ جاتی ہے زندہ نہیں ہوتا

بولی یہ تمنا جو رکے وہ در دل پر
گھر آپ کا ہے آپ سے پردا نہیں ہوتا

تیروں کو جگہ دیتے ہیں جو سینے میں اپنے
ان لوگوں کے اے جان کلیجہ نہیں ہوتا

صحرا سے قدم گھر کی طرف خاک اٹھاؤں
کانٹے سے جدا پاؤں کا چھالا نہیں ہوتا

بیٹھے نظر آتے ہیں وہی تیری گلی میں
جن کا کہیں دنیا میں ٹھکانا نہیں ہوتا

فرقت میں ہے کیوں نزع کی تکلیف گوارا
مر جائیں ریاضؔ آپ سے اتنا نہیں ہوتا

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse