اس شکر لب کا میں خیالی ہوں
Appearance
اس شکر لب کا میں خیالی ہوں
اس سبب شکریں مقالی ہوں
جب سوں تیری بھواں کی بیت کہا
تب سوں میں ثانیٔ ہلالی ہوں
دل نہیں تجھ خیال سوں خالی
اس سبب صورت خیالی ہوں
کیوں نہیں مجھ شکست میں آواز
کیا مگر کاسۂ سفالی ہوں
مجھ میں اظہار قال نیں ہرگز
بسکہ میں عاشقاں میں حالی ہوں
تجھ کف پا کی انتظاری میں
فرش ہونے کوں نقش قالی ہوں
کاں ہے اس وقت میں ولیؔ داؤدؔ
جو کہوں میں سخن کا والی ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |