اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے
by منتظر لکھنوی

اس شوخ کے انداز کو دیکھا تو غضب ہے
اور اس کے سوا ناز کو دیکھا تو غضب ہے

باتوں میں جو چھل لیوے ہے دل پیر و جواں کا
اس طفل دعا بار کو دیکھا تو غضب ہے

کیا کیا نہ کہا اس نے مجھے تیری طرف سے
کافر ترے ہم راز کو دیکھا تو غضب ہے

ہر چند کہ ہے طوطیٔ ہند ایک ہی خوش گو
پر بلبل شیراز کو دیکھا تو غضب ہے

ہرچند کہ ہے عشق کا انجام ہی کچھ قہر
ہر حسن کے آغاز کو دیکھا تو غضب ہے

ہم منتظرؔ اتنا نہ سمجھتے تھے اسے لیک
خوب اس بت خود ساز کو دیکھا تو غضب ہے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse