اس شوخ سے کیا کیجئے اظہار تمنا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس شوخ سے کیا کیجئے اظہار تمنا
by غلام یحییٰ حضورعظیم آبادی

اس شوخ سے کیا کیجئے اظہار تمنا
یہ لوگ کوئی سنتے ہیں گفتار تمنا

اک آرزو سب لے گئے ساتھ اپنے جہاں سے
انجام کسو سے نہ ہوا کار تمنا

یہ خوبیٔ قسمت کہ ملے باغ جہاں سے
سب کو گل امید و ہمیں خار تمنا

حسرت سے بھرا دل مرے پہلو میں نہیں ہے
پھرتا ہوں بغل میں لیے طومار تمنا

پہلو کو مرے باغ کیا عشق نے تیرے
زخموں سے مرا دل ہوا گل زار تمنا

مردوں سے حضورؔ ہو نہ سکے منت دونا
سر جائے پر ان سے نہ اٹھے بار تمنا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse