اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
by جوشش عظیم آبادی

اس شرمگیں کے منہ پہ نہ ہر دم نگاہ رکھ
سر رشتۂ نگاہ کو اپنے نگاہ رکھ

کس لطف سے ہے آئنہ دیکھ اس کے رو بہ رو
گردوں نہ دل میں آرزوئے مہر و ماہ رکھ

دیوانے چاہتا ہے اگر وصل یار ہو
تیرا بڑا رقیب ہے دل اس سے راہ رکھ

دل دار ہو تو یا کہ دل آزار تیرا شوق
دل دے چکا میں خواہ نہ رکھ اس کو خواہ رکھ

دعوائے قتل کر تجھے منظور ہے جو دل
دامان و تیغ یار ہی کو تو گواہ رکھ

میں چاہتا ہوں تجھ کو تو چاہے ہے غیر کو
یہ کیا غضب ہے چاہنے والے کی چاہ رکھ

ؔجوشش جدا ہے یار سے تو جانتا ہوں میں
اتنا بھی اضطراب خدا پر نگاہ رکھ

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse