اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی
by داغ دہلوی

اس سے کیا خاک ہم نشیں بنتی
بات بگڑی ہوئی نہیں بنتی

وہ بنی ابتدائے الفت میں
دم پہ جو وقت واپسیں بنتی

آدمی سب فرشتے بن جاتے
آسماں پر اگر زمیں بنتی

میری صورت بنی تو خاک بنی
قسمت اے صورت آفریں بنتی

وعدہ کرتے ہی کیا وہ آ جاتے
رات بھر زلف عنبریں بنتی

کاش سنتا نہ کوئی شور و فغاں
دل کی جا چشم سرمگیں بنتی

تو نے ایسے بگاڑ ڈالے ہیں
ایک کی ایک سے نہیں بنتی

نہ چمکتی جو حسن کی تقدیر
کیوں تری چاند سی جبیں بنتی

پارۂ جیب سے مرے اے کاش
دست وحشت کی آستیں بنتی

بزم دنیا تھی قابل جنت
خوب بنتی اگر یہیں بنتی

طبع نازک کا لطف جب تھا داغؔ
نازنینوں میں نازنیں بنتی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse