اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
by نظام رامپوری

اس سے پھر کیا گلا کرے کوئی
جو کہے سن کے کیا کرے کوئی

ہم بھی کیا کیا کہیں خدا جانے
گر ہماری سنا کرے کوئی

ہائے وہ باتیں پیار کی شب وصل
بھولے کیا یاد کیا کرے کوئی

لوگ کیوں پوچھتے ہیں حال مرا
ذکر کس بات کا کرے کوئی

درد دل کا علاج ہو کس سے
یوں مسیحا ہوا کرے کوئی

بے وفا گر کہوں تو کہتے ہیں
کیا ہر اک سے وفا کرے کوئی

جائے گر جاں تو سو ہیں تدبیریں
جائے گر دل تو کیا کرے کوئی

کوئی اپنی خطا تو ہو معلوم
عذر کس بات کا کرے کوئی

دل کا کچھ حال ہی نہیں کھلتا
گر مرض ہو دوا کرے کوئی

کبھی میں نے بھی کچھ کہا تم سے
نہ سنو، کچھ کہا کرے کوئی

تم سے بے رحم پر نہ دل آئے
اور آئے تو کیا کرے کوئی

سیکڑوں باتیں کہہ کے کہتے ہیں
پھر ہمیں کیوں خفا کرے کوئی

کوئی کب تک نہ دے جواب تمہیں
چپکا کب تک سنا کرے کوئی

شکوہ اس بت کا ہر کسی سے نظامؔ
اس سے کہہ دے خدا کرے کوئی

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse