اس سے امید وفا اے دل ناشاد نہ کر

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس سے امید وفا اے دل ناشاد نہ کر
by عبدالعلیم آسی

اس سے امید وفا اے دل ناشاد نہ کر
زندگی اپنی اس ارمان میں برباد نہ کر

گلۂ جور نہ کر شکوۂ بیدار نہ کر
ظلم سہنے کا مزا یہ ہے کہ فریاد نہ کر

خلوت دل ہے ترے آ کے ٹھہرنے کی جگہ
تیری مرضی اسے برباد کر آباد نہ کر

باغباں تاک میں ہے گھات میں صیاد ہے دیکھ
سیر گلشن ابھی اے بلبل ناشاد نہ کر

کچھ تڑپنے کا سسکنے کا مزا لینے دے
اتنی تعجیل مرے قتل میں جلاد نہ کر

اب مجھے طاقت پرواز نہیں اے صیاد
رہنے دے قید قفس سے مجھے آزاد نہ کر

اوپری دل سے سہی کچھ تو تسلی ہو جائے
صاف انکار سے ظالم مجھے ناشاد نہ کر

در محبوب تک اے بخت مجھے پہونچا دے
اور کچھ اس سے سوا تو مری امداد نہ کر

بے دھڑک جان سبھی اہل وفا دیتے ہیں
تو فقط مدحت جانبازئ فرہاد نہ کر

غم دل دار نے رگ رگ کا لہو چوس لیا
مجھ سے اب چھیڑ تو اے نشتر فولاد نہ کر

لاکھ دشوار سہی ضبط فغاں اے بلبل
مگر اک اف بھی تو بے مرضیٔ صیاد نہ کر

صدمۂ ہجر کے شکوؤں پہ وہ بولے شب وصل
گئی گزری ہوئی باتوں کو تو اب یاد نہ کر

اے دل اس شوخ کی تصویر تصور میں تو کھینچ
کام مانی سے نہ رکھ منت بہزاد نہ کر

آسیؔٔ بے سر و ساماں کو پڑا رہنے دے
اپنے کوچہ سے اٹھا کر اسے ناشاد نہ کر

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse