اس سنگ آستاں پہ جبین نیاز ہے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس سنگ آستاں پہ جبین نیاز ہے
by محمد ابراہیم ذوق

اس سنگ آستاں پہ جبین نیاز ہے
وہ اپنی جانماز ہے اور یہ نماز ہے

ناساز ہے جو ہم سے اسی سے یہ ساز ہے
کیا خوب دل ہے واہ ہمیں جس پہ ناز ہے

پہنچا ہے شب کمند لگا کر وہاں رقیب
سچ ہے حرام زادے کی رسی دراز ہے

اس بت پہ گر خدا بھی ہو عاشق تو آئے رشک
ہرچند جانتا ہوں کہ وہ پاکباز ہے

مداح خال روئے بتاں ہوں مجھے خدا
بخشے تو کیا عجب کہ وہ نکتہ نواز ہے

ڈرتا ہوں خنجر اس کا نہ بہہ جائے ہو کے آب
میرے گلے میں نالۂ آہن گداز ہے

دروازہ مے کدے کا نہ کر بند محتسب
ظالم خدا سے ڈر کہ در توبہ باز ہے

خانہ خرابیاں دل بیمار غم کی دیکھ
وہ ہی دوا خراب ہے جو خانہ ساز ہے

شبنم کی جائے گل سے ٹپکتی ہیں شوخیاں
گلشن میں کس کی خاک شہیدان ناز ہے

آہ و فغاں نہ کر جو کھلے ذوقؔ دل کا حال
ہر نالہ اک کلید در گنج راز ہے


Public domain
This work is in the public domain in countries where the copyright term is the author's life plus 70 years or less. See Copyright.