اس ستم گر سے جو ملا ہوگا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
by میر محمدی بیدار

اس ستم گر سے جو ملا ہوگا
جان سے ہاتھ دھو چکا ہوگا

عشق میں تیرے ہم جو کچھ دیکھا
نہ کسی نے کبھی سنا ہوگا

آہ قاصد تو اب تلک نہ پھرا
دل دھڑکتا ہے کیا ہوا ہوگا

تو ہی آنکھوں میں تو ہی ہے دل میں
کون یاں اور تجھ سوا ہوگا

اے میاں گل تو کھل چکے پہ کبھو
غنچۂ دل مرا بھی وا ہوگا

دیکھ تو فال میں کہ وہ مجھ سے
نہ ملے گا ملے گا کیا ہوگا

ہے یقیں مجھ کو تجھ ستم گر سے
دل کسی کا اگر لگا ہوگا

نالہ و آہ کرتے ہی کرتے
ایک دن یوں ہی مر گیا ہوگا

کوئی ہوگا کہ دیکھ اسے بیدارؔ
دل و دیں لے کے تج رہا ہوگا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse