اس زلف کے خیال کا ملنا محال تھا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس زلف کے خیال کا ملنا محال تھا
by دیا شنکر نسیم

اس زلف کے خیال کا ملنا محال تھا
جب تک موئے بلوں سے نکلنا محال تھا

دیتے نہ چاٹ اگر لب شیریں کے ذکر کی
مچلے تھا طفل اشک بہلنا محال تھا

پیری میں طرز عشق جوانی وہی رہا
صورت کے ساتھ دل کا بدلنا محال تھا

قاتل تری گلی میں ہوئے سب کے سر قلم
کیسے تھے کوچے راستہ چلنا محال تھا

شکر خدا بتوں سے ہوئیں گرم جوشیاں
پتھر کا مثل شیشہ پگھلنا محال تھا

سر تن سے کٹ کے لایا شگوفہ ہمارا خون
شاخ سناں کا پھولنا پھلنا محال تھا

خط کا غبار چھپ نہ سکا روئے یار سے
آتش سے گل کے خار کا جلنا محال تھا

محفل میں ان کو عطر دیا ہوگا غیر نے
یاروں کے غم میں ہاتھوں کو ملنا محال تھا

عمر رواں کو آنکھوں سے دیکھا چلا جو یار
کیا کیجے بگڑے دل کا سنبھلنا محال تھا

دل گرمیٔ خیال سے صورت بندھی نسیمؔ
اس سیم تن کا سانچے میں ڈھلنا محال تھا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse