اس دل کی عمارت میں تم جلوہ دکھا جانا

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس دل کی عمارت میں تم جلوہ دکھا جانا
by جمیلہ خدا بخش

اس دل کی عمارت میں تم جلوہ دکھا جانا
یا نور مبیں بن کر آنکھوں میں سما جانا

اپنا تو شکستہ دل اک خانۂ ویراں ہے
قدموں سے اسے اپنے آباد بنا جانا

عشاق کے مرقد پر حسرت یہی کہتی ہے
تم فتنۂ محشر ہو سوتوں کو جگا جانا

ان خاک نشینوں سے ملنا تمہیں لازم ہے
عشاق کے کوچہ میں بھولے سے تو آ جانا

مدت سے پیاسا میں بیٹھا ہوں ترے در پر
اک جام محبت کا خود آ کے پلا جانا

اس گردش قسمت نے سرگشتہ کیا یاں بھی
اے خضر رہ الفت تم راہ بتا جانا

آئے نہ سر بالیں گر میرے دم مردن
اب بہر دعا دلبر مرقد پہ تو آ جانا

کیا کیا نہ جفا مجھ پہ ہوتی ہے شب فرقت
الفت نے تری مجھ کو پابند وفا جانا

یہ عشق جمیلہؔ کا اے خضر رہ الفت
محبوب کے جلوہ کو اسرار خدا جانا

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse