اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
by میر حسن دہلوی

اس دل میں اپنی جان کبھی ہے کبھی نہیں
آباد یہ مکان کبھی ہے کبھی نہیں

غیروں کی بات کیا کہوں اس کی تو یاد میں
اپنا بھی مجھ کو دھیان کبھی ہے کبھی نہیں

وہ دن گئے جو کرتے تھے ہم متصل فغاں
اب آہ ناتوان کبھی ہے کبھی نہیں

جس آن میں رہے تو اسے جان مغتنم
یاں کی ہر ایک آن کبھی ہے کبھی نہیں

ایام وصل پر تو بھروسہ نہ کیجیو
یہ وقت میری جان کبھی ہے کبھی نہیں

عادت جو ہے ہمیشہ سے اس کی سو ہے غرض
وہ ہم پہ مہربان کبھی ہے کبھی نہیں

اس دوستی کا تیری تلون مزاجی سے
اپنے تئیں گمان کبھی ہے کبھی نہیں

مغرور ہوجیو نہ اس اوج و حشم پہ تو
یاں کی یہ عز و شان کبھی ہے کبھی نہیں

عاشق کہیں ہوا ہے حسنؔ کیا ہے اس کا حال
یہ آپ میں جوان کبھی ہے کبھی نہیں

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse