اس حسن کا شیدا ہوں اس حسن کا دیوانہ

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس حسن کا شیدا ہوں اس حسن کا دیوانہ
by ریاض خیرآبادی

اس حسن کا شیدا ہوں اس حسن کا دیوانہ
ہر گل ہے جہاں بلبل ہر شمع ہے پروانہ

پتھر پڑیں دونوں پر کعبہ ہو کہ بت خانہ
دونوں سے کہیں اچھا دیوانے کا پروانہ

کہتا ہے انا لیلیٰ کیسا ہے یہ دیوانہ
نبھنے کا نہیں دو دن اب قیس سے یارانہ

کعبہ ہو کلیسا ہو دل ہو کہ صنم خانہ
جلوہ ہو جہاں تیرا آباد وہ کاشانہ

چھوٹا سا مرا دل ہے ٹوٹا سا مرا دل ہے
صورت میں تو پیمانہ وسعت میں ہے مے خانہ

دل سے ہے لگی یہ لو اک ذرہ برابر ضو
پڑ جائے ترا پرتو اے جلوۂ جانانہ

بیگانہ یگانہ ہے دل آئینہ خانہ ہے
کعبے کا یہ کعبہ ہے بت خانے کا بت خانہ

ہے جوش جنوں پر وہ اے عشق خرد آگہ
فرزانہ ہے دیوانہ دیوانہ ہے فرزانہ

فرہاد بھی مجنوں بھی لیتے ہیں قدم میرے
ایسا بھی نہ ہو کوئی اس عشق میں دیوانہ

یاد آئی بہت ہم کو ٹوٹی ہوئی توبہ بھی
دیکھا جو کہیں ہم نے ٹوٹا ہوا پیمانہ

شیشے کی پری تجھ میں کیا حسن کا عالم ہے
ساقی نہ ہو پھر بھی تو یہ گھر ہے پری خانہ

دے کوئی سکھی داتا مے خانہ بڑا گھر ہے
آتا ہے صدا دیتا شب کو کوئی مستانہ

بہکے ہوئے لوگوں میں سب سے ہیں ریاضؔ اچھے
رفتار ہے مستانہ گفتار ہے رندانہ

This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author.

Public domainPublic domainfalsefalse