اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
by بیخود بدایونی

اس بزم میں نہ ہوش رہے گا ذرا مجھے
اے شوق ہرزہ تاز کہاں لے چلا مجھے

یہ درد دل ہی زیست کا باعث ہے چارہ گر
مر جاؤں گا جو آئی موافق دوا مجھے

اس ذوق ابتلا کا مزہ اس کے دم سے ہے
سب کچھ ملا ملا ہو دل مبتلا مجھے

دیر و حرم کو دیکھ لیا خاک بھی نہیں
بس اے تلاش یار نہ در در پھرا مجھے

یہ دل سے دور ہو نہ دکھائے خدا وہ دن
ظالم ترا خیال ہے دل سے سوا مجھے

رنج و ملال و حسرت و ارمان و آرزو
جانے سے ایک دل کے بہت کچھ ملا مجھے

میں جانتا ہوں آپ ہیں مست اپنے حال میں
بیخودؔ نہیں ہے آپ سے مطلق گلا مجھے

This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.

Public domainPublic domainfalsefalse