اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے

From Wikisource
Jump to navigation Jump to search
اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
by شکیب جلالی

اس بت کدے میں تو جو حسیں تر لگا مجھے
اپنے ہی اک خیال کا پیکر لگا مجھے

جب تک رہی جگر میں لہو کی ذرا سی بوند
مٹھی میں اپنی بند سمندر لگا مجھے

مرجھا گیا جو دل میں اجالے کا سرخ پھول
تاروں بھرا یہ کھیت بھی بنجر لگا مجھے

اب یہ بتا کہ روح کے شعلے کا کیا ہے رنگ
مرمر کا یہ لباس تو سندر لگا مجھے

کیا جانیے کہ اتنی اداسی تھی رات کیوں
مہتاب اپنی قبر کا پتھر لگا مجھے

آنکھوں کو بند کر کے بڑی روشنی ملی
مدھم تھا جو بھی نقش اجاگر لگا مجھے

یہ کیا کہ دل کے دیپ کی لو ہی تراش لی
سورج اگر ہے کرنوں کی جھالر لگا مجھے

صدیوں میں طے ہوا تھا بیاباں کا راستہ
گلشن کو لوٹتے ہوئے پل بھر لگا مجھے

میں نے اسے شریک سفر کر لیا شکیبؔ
اپنی طرح سے چاند جو بے گھر لگا مجھے

This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.

Public domainPublic domainfalsefalse